رضوانہ سعید روز کی غزل

    جب سے تیری عطا نہیں موجود

    جب سے تیری عطا نہیں موجود ایک بھی التجا نہیں موجود دیکھ آ کر مری ہتھیلی میں کیا ہے موجود کیا نہیں موجود ڈھیل دینے کا یہ نہیں مطلب تم سمجھ لو خدا نہیں موجود کیا رسائی ہے دسترس کیا ہے جب کوئی حوصلہ نہیں موجود اب بھلا کیوں ہوائیں پاگل ہیں اب تو کوئی دیا نہیں موجود

    مزید پڑھیے

    ہجر نے اس طرح اتارے رنگ

    ہجر نے اس طرح اتارے رنگ جیسے تھے ہی نہیں ہمارے رنگ ایک منظر سے ہو گئے گھائل تم نے دیکھے کہاں ہیں سارے رنگ نیند ٹھہری ہوئی تھی پلکوں پر رہ گئے خواب کے کنارے رنگ نقش ابھرے تمہاری نظروں سے آپ کی آنکھ نے نکھارے رنگ کس قدر شان سے کشید ہوئے کس قدر تمکنت سے ہارے رنگ سرخ جوڑے کا ...

    مزید پڑھیے

    آئنہ دیکھتا ہوا کوئی

    آئنہ دیکھتا ہوا کوئی ایک پل میں بدل گیا کوئی اس گلی سے نکل گیا آگے میرے بارے میں پوچھتا کوئی اس نے دھیرے سے کچھ کہا دل میں تھم گیا جو تھا شور سا کوئی دل تلک راستہ بناتا گیا میری آنکھوں میں جھانکتا کوئی دل کی خواہش بس ایک وصل ترا حاصل زیست معجزہ کوئی روزؔ یوں مجھ کو دیکھتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    گرچہ مدھم دکھائی دیتا ہے

    گرچہ مدھم دکھائی دیتا ہے اس کو تاہم دکھائی دیتا ہے وصل کو خواب جاننے والے کیا تجھے کم دکھائی دیتا ہے حسن جب سے گریز پا ہے ذرا شوق برہم دکھائی دیتا ہے رات بھر ٹوٹتا ہوا تارا مجھ کو پیہم دکھائی دیتا ہے روزؔ دیتا ہے ایک زخم نیا وہ جو مرہم دکھائی دیتا ہے

    مزید پڑھیے

    تلخ لمحات میں جیا ہوا ہے

    تلخ لمحات میں جیا ہوا ہے میں نے یہ کام بھی کیا ہوا ہے کیا کریدا ہے اپنے زخموں کو یا کوئی اور سانحہ ہوا ہے کچھ دنوں سے میں اضطراب میں ہوں کچھ دنوں سے یہ سلسلہ ہوا ہے ایسے لہجے میں مجھ سے بات نہ کر آج کل میرا سر پھرا ہوا ہے ایک سجدہ ہے تشنۂ مسجود ایک سجدہ ابھی ادا ہوا ہے اب تلک ...

    مزید پڑھیے

    جس نے شیرازہ بکھیرا عمر کا

    جس نے شیرازہ بکھیرا عمر کا یہ جنوں حاصل ہے میرا عمر کا ایک لمحہ کیا ملا تھا ہجر کو کر لیا اس نے بسیرا عمر کا تھا دیا لیکن اسے بجھنے دیا چن لیا میں نے اندھیرا عمر کا ایک دن آئے گا جب آفاق میں ڈوب جائے گا سویرا عمر کا کو بہ کو ہیں ہجر کی پرچھائیاں اس سے ہے آباد ڈیرا عمر کا جانتی ...

    مزید پڑھیے

    مرے یاقوت اور مرجان مرشد

    مرے یاقوت اور مرجان مرشد تمہارے نام پر قربان مرشد کسی لمحے بھی رد ہوتا نہیں ہے تمہارے وصل کا امکان مرشد اچانک آئیے اور آئیے یوں مجھے کر دیجئے حیران مرشد مسلسل سر اٹھانے لگ گئے ہیں مرے اندر کے یہ طوفان مرشد ہے میری شاعری اس کے سوا کیا مرے ہر شعر کا عنوان مرشد

    مزید پڑھیے

    جب دیکھتے رہتے ہیں وہ کردار ہمارے

    جب دیکھتے رہتے ہیں وہ کردار ہمارے ہوں کیوں نہ پشیماں در و دیوار ہمارے دیتے ہیں ہر اک راہ میں رہ گیر کو سایہ جلتے ہیں کڑی دھوپ میں اشجار ہمارے تقسیم کے صدقے میں ہمیں کچھ تو ملے گا چل پھول تمہارے ہیں تو سب خار ہمارے آ جاؤ کہ مل جل کے کوئی شکل بنا لیں ہیں تشنۂ تکمیل وہ شہ کار ...

    مزید پڑھیے

    مجھے وہ شخص قلندر دکھائی دیتا ہے

    مجھے وہ شخص قلندر دکھائی دیتا ہے جو میرے خواب کے اندر دکھائی دیتا ہے یہ لگ رہا ہے مرا شہر چھوڑ جائے گا وہ آج کل مجھے اکثر دکھائی دیتا ہے تو کیا یہ مان لوں میں آسماں سے اوپر ہوں ہر اک ستارہ زمیں پر دکھائی دیتا ہے جو سامنے ہے صریحاً نظر کا ہے دھوکہ وہ ہے نہیں جو برابر دکھائی دیتا ...

    مزید پڑھیے

    خلوتوں میں بہا لیا ترا غم

    خلوتوں میں بہا لیا ترا غم بزم میں گنگنا لیا ترا غم ہر اداسی پہ اک تبسم تھا مسکراہٹ سے کھا لیا ترا غم تھا کبھی چاک چاک گلیوں میں ہم نے اپنا بنا لیا ترا غم پوچھنے پر خدا کا شکر کیا دھڑکنوں کو سنا لیا ترا غم روزؔ کس طرح زندگی کرتے شکر ہے ہم نے پا لیا ترا غم

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2