برف ہوتی ہوئی حدت کو نہیں جانتے ہو
برف ہوتی ہوئی حدت کو نہیں جانتے ہو
تم پگھلنے کی اذیت کو نہیں جانتے ہو
دیکھیے عام عداوت میں تو گنجائش ہے
تم مگر جوش رقابت کو نہیں جانتے ہو
بے گناہی کے لیے آگ پہ چلنا ہوگا
تم قبیلے کی روایت کو نہیں جانتے ہو
اب پلٹنے کا نتیجہ ہے کسی ایک کی موت
تم مرے پیار کی شدت کو نہیں جانتے ہو
آنکھ سے دیکھا سنا کان سے ظاہر ہے مگر
تم پس پردہ حقیقت کو نہیں جانتے ہو
میرے لہجے میں جو ٹھہراؤ نہیں آیا روزؔ
کیا مری تلخیٔ ہجرت کو نہیں جانتے ہو