ہو رہی تھی کمی اداسی کی

ہو رہی تھی کمی اداسی کی
پھر یہ محفل جمی اداسی کی


میرے آنسو نکال دیتی ہے
گفتگو باہمی اداسی کی


وصل کی مسکراہٹیں لب پر
آنکھ میں ہے نمی اداسی کی


محفلوں میں بھی کس قدر تنہا
دیکھیے برہمی اداسی کی


صبح ہوتے ہی رو پڑی شبنم
دیکھ کر بے بسی اداسی کی


روزؔ جب شام ہو گئی گہری
خیریت پوچھ لی اداسی کی