رحمت امروہوی کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    ان کے سوا کسی کو نہ دیکھا کریں گے ہم

    ان کے سوا کسی کو نہ دیکھا کریں گے ہم آئینۂ نظر کو نہ میلا کریں گے ہم لو غم کی زندگی بھی ہمیں راس آ گئی لو اب کبھی نہ آپ سے شکوہ کریں گے ہم چرکے بہت دئے ہیں وفاؤں کے رنگ میں اپنوں پہ اب کبھی نہ بھروسہ کریں گے ہم رسوائیوں کے خوف سے آنسو بھی پی گئے یہ کس نے کہہ دیا تمہیں رسوا کریں گے ...

    مزید پڑھیے

    مبہم نگارشات کو فن کہہ دیا گیا

    مبہم نگارشات کو فن کہہ دیا گیا بنجر زمیں کو شہر سخن کہہ دیا گیا ہے اب بھی ان کے نام سے روشن بساط شعر وہ جن کو اعتبار سخن کہہ دیا گیا کتنے ہی باغبانوں کے چہرے اتر گئے بگڑا ہوا جو نظم چمن کہہ دیا گیا خاشاک کو کہا گیا نسرین و نسترن کانٹے اگے تو سرو سمن کہہ دیا گیا ہم نے بھی کھردرے ...

    مزید پڑھیے

    وفا کا رنگ جو گہرا دکھائی دیتا ہے

    وفا کا رنگ جو گہرا دکھائی دیتا ہے لہو کچھ اس میں ہمارا دکھائی دیتا ہے ہمارا غم سے تعلق بہت پرانا ہے ہمارا درد سے رشتہ دکھائی دیتا ہے غزل ہو دار و رسن ہو کہ بزم خوباں ہو ہر اک جگہ وہی چہرہ دکھائی دیتا ہے کسی زمانے میں یاروں کا یار تھا وہ بھی وہ ایک شخص جو تنہا دکھائی دیتا ہے چلے ...

    مزید پڑھیے

    محبت زندگی کی اک کڑی ہے

    محبت زندگی کی اک کڑی ہے مگر اس راہ میں مشکل بڑی ہے کبھی ہونٹوں پہ رقصاں ہے تبسم کبھی آنکھوں سے ساون کی جھڑی ہے تمہارا ذکر تھا اور آ گئے تم تمہاری عمر بھی کتنی بڑی ہے کہیں تو مل ہی جائے گا ٹھکانہ ارے اتنی بڑی دنیا پڑی ہے غزل اور تنگ دامانی کا شکوہ سلیقہ ہو تو گنجائش بڑی ہے نہ ...

    مزید پڑھیے

    منہ سے گو وہ کچھ نہ کہیں پر آنکھیں سب کچھ بولیں ہیں

    منہ سے گو وہ کچھ نہ کہیں پر آنکھیں سب کچھ بولیں ہیں اب تو وہ بھی تنہائی میں چپکے چپکے رو لیں ہیں ہم نے سعیٔ ضبط بہت کی آنسو پھر بھی آ ہی گئے ان اشکوں کا یار برا ہو راز دل سب کھولیں ہیں کون سنے گا کس کو فرصت کس کو سنائیں کس سے کہیں اب تو ہم دکھ درد بھی اپنا غزلوں ہی میں سمو لیں ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 نظم (Nazm)

    تخلیق

    یہ کاغذ پر مرے دل کا لہو ہے یہ نظمیں خون سے لکھی ہیں میں نے یہ یادیں ہیں مرے بیتے دنوں کی یہ سرمایہ ہے میری زندگی کا ہے لفظوں میں مقفل روح میری جو میرے بعد بھی زندہ رہے گی مری تخلیق پایندہ رہے گی

    مزید پڑھیے

    بیوہ

    آج لے رشتۂ پیمان وفا ٹوٹ گیا تجھ سے اب تیرے تصور کا خدا روٹھ گیا اب کوئی کاگا منڈیری پہ نہیں بولے گا کوئی ہرکارہ ترا خط بھی نہیں لائے گا کوئی پیغام زبانی بھی نہیں آئے گا لوگ اب زخم پہ مرہم بھی نہ رکھنے دیں گے دن بہ دن زخم ترے اور بھی گہرے ہوں گے تیری ہر راہ کے ہر موڑ پہ پہرے ہوں ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    فکر کی دوڑ میں تم دور نکل آئے ہو اپنی منزل کو بہت پیچھے ہی چھوڑ آئے ہو کہیں ایسا نہ ہو کل تم کو پلٹنا پڑے منزل کی طرف اور پھر تاب و تواں ساتھ نہ دے حسن بیاں ساتھ نہ دے خامہ انگشت بدنداں رہ جائے انگلیاں ساکت و جامد ہو جائیں پاؤں تھرانے لگیں اور منزل تو کجا نقش کف پا نہ ملے

    مزید پڑھیے

    مشورہ

    اتھلے پانی میں گہر مت ڈھونڈو رائیگاں جائے گی محنت ساری اتھلے پانی کی طرف مت دیکھو سنگ ریزوں کے سوا کیا ہوگا یوں کھڑے دور سے کیا تکتے ہو بحر کی تہہ میں نہاں ہیں موتی در مقصود ہیں گہرائی میں ہو جو غواص تو تہ تک پہنچو یا تو غرقاب ہی ہو جاؤ گے ورنہ لے آؤ گے چن کر موتی

    مزید پڑھیے