رحمت امروہوی کی نظم

    تخلیق

    یہ کاغذ پر مرے دل کا لہو ہے یہ نظمیں خون سے لکھی ہیں میں نے یہ یادیں ہیں مرے بیتے دنوں کی یہ سرمایہ ہے میری زندگی کا ہے لفظوں میں مقفل روح میری جو میرے بعد بھی زندہ رہے گی مری تخلیق پایندہ رہے گی

    مزید پڑھیے

    بیوہ

    آج لے رشتۂ پیمان وفا ٹوٹ گیا تجھ سے اب تیرے تصور کا خدا روٹھ گیا اب کوئی کاگا منڈیری پہ نہیں بولے گا کوئی ہرکارہ ترا خط بھی نہیں لائے گا کوئی پیغام زبانی بھی نہیں آئے گا لوگ اب زخم پہ مرہم بھی نہ رکھنے دیں گے دن بہ دن زخم ترے اور بھی گہرے ہوں گے تیری ہر راہ کے ہر موڑ پہ پہرے ہوں ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    فکر کی دوڑ میں تم دور نکل آئے ہو اپنی منزل کو بہت پیچھے ہی چھوڑ آئے ہو کہیں ایسا نہ ہو کل تم کو پلٹنا پڑے منزل کی طرف اور پھر تاب و تواں ساتھ نہ دے حسن بیاں ساتھ نہ دے خامہ انگشت بدنداں رہ جائے انگلیاں ساکت و جامد ہو جائیں پاؤں تھرانے لگیں اور منزل تو کجا نقش کف پا نہ ملے

    مزید پڑھیے

    مشورہ

    اتھلے پانی میں گہر مت ڈھونڈو رائیگاں جائے گی محنت ساری اتھلے پانی کی طرف مت دیکھو سنگ ریزوں کے سوا کیا ہوگا یوں کھڑے دور سے کیا تکتے ہو بحر کی تہہ میں نہاں ہیں موتی در مقصود ہیں گہرائی میں ہو جو غواص تو تہ تک پہنچو یا تو غرقاب ہی ہو جاؤ گے ورنہ لے آؤ گے چن کر موتی

    مزید پڑھیے