منہ سے گو وہ کچھ نہ کہیں پر آنکھیں سب کچھ بولیں ہیں

منہ سے گو وہ کچھ نہ کہیں پر آنکھیں سب کچھ بولیں ہیں
اب تو وہ بھی تنہائی میں چپکے چپکے رو لیں ہیں


ہم نے سعیٔ ضبط بہت کی آنسو پھر بھی آ ہی گئے
ان اشکوں کا یار برا ہو راز دل سب کھولیں ہیں


کون سنے گا کس کو فرصت کس کو سنائیں کس سے کہیں
اب تو ہم دکھ درد بھی اپنا غزلوں ہی میں سمو لیں ہیں


اپنی تو فطرت ہی ازل سے ہے کافی دشوار پسند
ہم تو اپنی راہ میں یارو خود ہی کانٹے بو لیں ہیں


ہم سے بھی ٹک نظر ملاؤ کبھو کبھو کچھ بات کرو
ہم بھی میرؔ کے شیدائی ہیں میرؔ کی بولی بولیں ہیں


سن کے وہ رحمتؔ کی غزلیں ہنس کے یہ فرمانے لگے
ان غزلوں کے پردے میں تو میرؔ کی غزلیں بولیں ہیں