رحمت امروہوی کی غزل

    ان کے سوا کسی کو نہ دیکھا کریں گے ہم

    ان کے سوا کسی کو نہ دیکھا کریں گے ہم آئینۂ نظر کو نہ میلا کریں گے ہم لو غم کی زندگی بھی ہمیں راس آ گئی لو اب کبھی نہ آپ سے شکوہ کریں گے ہم چرکے بہت دئے ہیں وفاؤں کے رنگ میں اپنوں پہ اب کبھی نہ بھروسہ کریں گے ہم رسوائیوں کے خوف سے آنسو بھی پی گئے یہ کس نے کہہ دیا تمہیں رسوا کریں گے ...

    مزید پڑھیے

    مبہم نگارشات کو فن کہہ دیا گیا

    مبہم نگارشات کو فن کہہ دیا گیا بنجر زمیں کو شہر سخن کہہ دیا گیا ہے اب بھی ان کے نام سے روشن بساط شعر وہ جن کو اعتبار سخن کہہ دیا گیا کتنے ہی باغبانوں کے چہرے اتر گئے بگڑا ہوا جو نظم چمن کہہ دیا گیا خاشاک کو کہا گیا نسرین و نسترن کانٹے اگے تو سرو سمن کہہ دیا گیا ہم نے بھی کھردرے ...

    مزید پڑھیے

    وفا کا رنگ جو گہرا دکھائی دیتا ہے

    وفا کا رنگ جو گہرا دکھائی دیتا ہے لہو کچھ اس میں ہمارا دکھائی دیتا ہے ہمارا غم سے تعلق بہت پرانا ہے ہمارا درد سے رشتہ دکھائی دیتا ہے غزل ہو دار و رسن ہو کہ بزم خوباں ہو ہر اک جگہ وہی چہرہ دکھائی دیتا ہے کسی زمانے میں یاروں کا یار تھا وہ بھی وہ ایک شخص جو تنہا دکھائی دیتا ہے چلے ...

    مزید پڑھیے

    محبت زندگی کی اک کڑی ہے

    محبت زندگی کی اک کڑی ہے مگر اس راہ میں مشکل بڑی ہے کبھی ہونٹوں پہ رقصاں ہے تبسم کبھی آنکھوں سے ساون کی جھڑی ہے تمہارا ذکر تھا اور آ گئے تم تمہاری عمر بھی کتنی بڑی ہے کہیں تو مل ہی جائے گا ٹھکانہ ارے اتنی بڑی دنیا پڑی ہے غزل اور تنگ دامانی کا شکوہ سلیقہ ہو تو گنجائش بڑی ہے نہ ...

    مزید پڑھیے

    منہ سے گو وہ کچھ نہ کہیں پر آنکھیں سب کچھ بولیں ہیں

    منہ سے گو وہ کچھ نہ کہیں پر آنکھیں سب کچھ بولیں ہیں اب تو وہ بھی تنہائی میں چپکے چپکے رو لیں ہیں ہم نے سعیٔ ضبط بہت کی آنسو پھر بھی آ ہی گئے ان اشکوں کا یار برا ہو راز دل سب کھولیں ہیں کون سنے گا کس کو فرصت کس کو سنائیں کس سے کہیں اب تو ہم دکھ درد بھی اپنا غزلوں ہی میں سمو لیں ...

    مزید پڑھیے

    نہیں جو دولت زاد سفر تو کیا غم ہے

    نہیں جو دولت زاد سفر تو کیا غم ہے یہی متاع بہت ہے کہ عزم محکم ہے قدم قدم پہ حوادث قدم قدم خطرے بتا رہے ہیں کہ منزل کا فاصلہ کم ہے یہ میکدے کے ہیں بانی انہیں شراب نہ دو حضور جرم بڑا ہے سزا بہت کم ہے ہماری بات ہی کیا تھی رہی رہی نہ رہی تمہاری بات تو رکھ لی ہے کیا یہ کچھ کم ہے ہیں اب ...

    مزید پڑھیے

    اس طرف چشم التفات نہیں

    اس طرف چشم التفات نہیں جائیے خیر کوئی بات نہیں شیخ یہ موسم بہاراں ہے ان دنوں خون خواہشات نہیں یوں وہ ملنے کو اب بھی ملتے ہیں پر وہ پہلا سا التفات نہیں صرف اپنے ہی واسطے جینا اپنا یہ مقصد حیات نہیں رنج ہو یا خوشی ہو اے رحمتؔ کوئی شے ہو یہاں ثبات نہیں

    مزید پڑھیے

    وہ ایک شخص جو ہم سے کبھی ملا بھی نہیں

    وہ ایک شخص جو ہم سے کبھی ملا بھی نہیں ہمارے ساتھ ہے اور ہم سے وہ جدا بھی نہیں قلم اٹھاؤ تو کاغذ سے وہ ابھرتا ہے دل و دماغ سے یہ ربط ٹوٹتا بھی نہیں سجے تو کیسے سجے انجمن خیالوں کی وہ بادہ کش بھی نہیں اب وہ میکدہ بھی نہیں بغیر برسے گھٹائیں گزر گئیں اب کے یوں ہی چلا گیا موسم نے کچھ ...

    مزید پڑھیے

    آرزوؤں کا نگر چھوڑ آئے

    آرزوؤں کا نگر چھوڑ آئے ناز تھا جس پہ وہ گھر چھوڑ آئے اک تری یاد بچا کر رکھ لی سارا سامان سفر چھوڑ آئے مدتوں یاد رکھے گی دنیا ہم بھی اک ایسا ہنر چھوڑ آئے گھر کے باہر بھی اداسی نہ گئی گھر سے گھبرا کے جو گھر چھوڑ آئے تھک گئے جب کوئی کھڑکی نہ کھلی ہم وہیں دیدۂ تر چھوڑ آئے اس کو آتے ...

    مزید پڑھیے

    حادثوں ہی میں زندگی جی ہے

    حادثوں ہی میں زندگی جی ہے ہم نے قسطوں میں خودکشی کی ہے جھک کے جینا ہمیں نہیں آتا اور آواز بھی کچھ اونچی ہے آپ سے کچھ گلا نہیں صاحب اپنی تقدیر ہی کچھ ایسی ہے شعر پڑھنا یہاں سنبھل کے میاں اور بستی نہیں یہ دلی ہے چہرہ اس کا کتاب جیسا ہے اور رنگت گلاب کی سی ہے ہم نے رحمتؔ غزل کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2