ایک نظم
فکر کی دوڑ میں
تم دور نکل آئے ہو
اپنی منزل کو بہت پیچھے ہی چھوڑ آئے ہو
کہیں ایسا نہ ہو
کل تم کو
پلٹنا پڑے منزل کی طرف
اور پھر
تاب و تواں ساتھ نہ دے
حسن بیاں ساتھ نہ دے
خامہ انگشت بدنداں رہ جائے
انگلیاں ساکت و جامد ہو جائیں
پاؤں تھرانے لگیں
اور منزل تو کجا
نقش کف پا نہ ملے