Raghunandan Sharma Danish

رگھونندن شرما دانش

رگھونندن شرما دانش کی غزل

    سمندر اس لئے گھبرا رہا ہے

    سمندر اس لئے گھبرا رہا ہے ندی کا رستہ روکا جا رہا ہے جدا کیا ہو گئے پنچھی شجر سے لکڑہارا بہت اترا رہا ہے اتر جائیں گے ہم بھی اب نظر سے ہمیں جی بھر کے دیکھا جا رہا ہے مرے اندر کوئی تو ہے جو مجھ کو مرے بارے میں ہی بھڑکا رہا ہے خموشی کیوں نہ ٹوٹے گی ندی کی کہ اس میں سنگ پھینکا جا ...

    مزید پڑھیے

    سب سمجھتے ہیں مجھ کو لا یعنی

    سب سمجھتے ہیں مجھ کو لا یعنی آدمی ہوں میں کام کا یعنی عمر بھر عشق ہی کیا میں نے عمر بھر کچھ نہیں کیا یعنی کچھ نہ آئے گا اب کہانی میں میرا کردار مر گیا یعنی مدتوں بے خبر رہا خود سے مدتوں مجھ میں تو رہا یعنی میں تجھے سن نہ پایا خلوت میں میرے اندر ہی شور تھا یعنی

    مزید پڑھیے

    یہ کس مقام پے لے آئی مجھ کو تنہائی (ردیف .. ا)

    یہ کس مقام پے لے آئی مجھ کو تنہائی کہ اپنے ساتھ بھی اک پل نہیں رہا جاتا میں تیز دھوپ میں راضی تھا بیٹھنے کے لیے وہ میرا سایا اگر اوڑھنے کو آ جاتا یہ راہگیر مرے شہر کا نہیں ورنہ مرے مکان میں پتھر تو پھینکتا جاتا اب اس کے لوٹنے کی آس چھوڑ دی میں نے اب اپنے آپ کو دھوکا نہیں دیا ...

    مزید پڑھیے

    یہ شیشہ دل کے جو بکھرے ہوئے ہیں

    یہ شیشہ دل کے جو بکھرے ہوئے ہیں تمہارے عشق میں ٹوٹے ہوئے ہیں ابھی بھی وقت ہے تم لوٹ آؤ تمہارے واسطے ٹھہرے ہوئے ہیں یہ سچ ہے بچپنا کیچڑ میں بیتا بتاؤ کب مگر میلے ہوئے ہیں یہ ہجرت صرف ہجرت ہی نہیں ہے ہماری روح کے ٹکڑے ہوئے ہیں حقیقت بولنے والے جہاں میں بتاؤ کب کسے پیارے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    میرے آنگن سے اجالا کیا گیا

    میرے آنگن سے اجالا کیا گیا چھوڑ کر مجھ کو مرا سایا گیا میں نے دیکھا تھا کسی کو ڈوبتے اور میں بھی ڈوبتے دیکھا گیا دوست گھر آیا تھا آدھی رات میں مجھ سے دروازہ نہیں کھولا گیا بھیڑ سے خود کو بچا لایا تھا میں اور اپنے آپ سے ٹکرا گیا ٹھیک سے دکھتا نہیں پیکر ترا تو مرے نزدیک اتنا آ ...

    مزید پڑھیے

    بہت دیر سے کھانا کھایا تھا آج

    بہت دیر سے کھانا کھایا تھا آج ہمارے ہی گھر میں ولیمہ تھا آج توجہ نہ ملنے کا دکھ ہے بہت زیادہ ہی خود کو سنوارا تھا آج تمہاری طلب کو بھی ٹھکرا دیا کوئی مجھ میں میرے علاوہ تھا آج نہیں آئے گی نیند آسانی سے بہت دیر اپنوں میں بیٹھا تھا آج نظر رکھی جائے گی دفتر میں کل میں گھر لوٹتے ...

    مزید پڑھیے

    ندی کے ساتھ بھی کچھ مسئلہ تھا

    ندی کے ساتھ بھی کچھ مسئلہ تھا سمندر کا بھی اپنا دائرہ تھا دعائیں کر رہے تھے نقش سارے مصور سوچ میں ڈوبا ہوا تھا مجھے خود پر ندامت ہو رہی تھی میں اس کی خامشی کو سن رہا تھا اگر سب زخم میرے بھر چکے تھے تو مجھ میں کون آہیں بھر رہا تھا اندھیرا گھر کا دنیا کو دکھانے دریچے پر دیا رکھا ...

    مزید پڑھیے

    دریچے پر دیے رکھے ہوئے ہیں

    دریچے پر دیے رکھے ہوئے ہیں اندھیرے کمرے کو گھیرے ہوئے ہیں اگر میں دھوپ میں تنہا کھڑا ہوں تو اتنے سائے کیوں ابھرے ہوئے ہیں ہر اک انسان اچھا لگ رہا ہے ہم اپنے آپ سے روٹھے ہوئے ہیں دکھی ہے جب سے صیادوں کی ٹولی پرندوں سے شجر لپٹے ہوئے ہیں لگے ہیں سستے اپنے آپ کو ہم نظر میں سب کی جب ...

    مزید پڑھیے

    کیسے پاؤں تجھے گرداب نظر آتا ہے

    کیسے پاؤں تجھے گرداب نظر آتا ہے اور تو مجھ کو تہہ آب نظر آتا ہے تو جو دکھ جائے تو میں عید مکمل سمجھوں اب مجھے تجھ میں ہی مہتاب نظر آتا ہے چاک دامن بھی ہے مفلس بھی ہے بے گھر بھی ہے اس لیے زر کا اسے خواب نظر آتا ہے ایک وو شخص جو اوروں کے لیے جیتا ہو آج کے دور میں کم یاب نظر آتا ...

    مزید پڑھیے

    وہ زمانا نہ سہی اتنا تو دے سکتا تھا

    وہ زمانا نہ سہی اتنا تو دے سکتا تھا مجھ کو اک دوست مرے جیسا تو دے سکتا تھا دینے والے کا ارادہ نہ تھا کچھ دینے کا ورنہ دریا نہ سہی قطرہ تو دے سکتا تھا کیوں نہیں آنے دیا بزم میں اس گونگے کو وہ ہمیں لفظ نہیں لہجہ تو دے سکتا تھا کیسے افسوس نہ ہو لاش نہ مل پانے کا میں اسے سانس نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3