سمندر اس لئے گھبرا رہا ہے
سمندر اس لئے گھبرا رہا ہے
ندی کا رستہ روکا جا رہا ہے
جدا کیا ہو گئے پنچھی شجر سے
لکڑہارا بہت اترا رہا ہے
اتر جائیں گے ہم بھی اب نظر سے
ہمیں جی بھر کے دیکھا جا رہا ہے
مرے اندر کوئی تو ہے جو مجھ کو
مرے بارے میں ہی بھڑکا رہا ہے
خموشی کیوں نہ ٹوٹے گی ندی کی
کہ اس میں سنگ پھینکا جا رہا ہے