دریچے پر دیے رکھے ہوئے ہیں
دریچے پر دیے رکھے ہوئے ہیں
اندھیرے کمرے کو گھیرے ہوئے ہیں
اگر میں دھوپ میں تنہا کھڑا ہوں
تو اتنے سائے کیوں ابھرے ہوئے ہیں
ہر اک انسان اچھا لگ رہا ہے
ہم اپنے آپ سے روٹھے ہوئے ہیں
دکھی ہے جب سے صیادوں کی ٹولی
پرندوں سے شجر لپٹے ہوئے ہیں
لگے ہیں سستے اپنے آپ کو ہم
نظر میں سب کی جب مہنگے ہوئے ہیں
یہ ہجرت صرف ہجرت ہی نہیں ہے
ہماری روح کے ٹکڑے ہوئے ہیں