وہ زمانا نہ سہی اتنا تو دے سکتا تھا
وہ زمانا نہ سہی اتنا تو دے سکتا تھا
مجھ کو اک دوست مرے جیسا تو دے سکتا تھا
دینے والے کا ارادہ نہ تھا کچھ دینے کا
ورنہ دریا نہ سہی قطرہ تو دے سکتا تھا
کیوں نہیں آنے دیا بزم میں اس گونگے کو
وہ ہمیں لفظ نہیں لہجہ تو دے سکتا تھا
کیسے افسوس نہ ہو لاش نہ مل پانے کا
میں اسے سانس نہیں کاندھا تو دے سکتا تھا
وہ نہیں چاہتا تھا یادوں سے بے چین رہوں
ورنہ جاتے ہوئے اک بوسہ تو دے سکتا تھا