Rabia Basri

رابعہ بصری

رابعہ بصری کی غزل

    ہوا کو تھام لیں خوشبو کا اہتمام کریں

    ہوا کو تھام لیں خوشبو کا اہتمام کریں سنور لیا ہو تو ہم چاند سے کلام کریں ہم اپنے سوگ بھلا کے انہیں سلامی دیں چلو کہ ہجر کے ماروں کا احترام کریں گلاب رت میں کسی چھت پہ رنگ لے کے چلیں جنوں میں بھیگنے والوں کا انتظام کریں پرانے بیلیوں سے ملتے آئیں گاؤں میں گلی میں بیٹھے فقیروں کو ...

    مزید پڑھیے

    تم جو دامن ذرا بھگو لیتے

    تم جو دامن ذرا بھگو لیتے ہم بھی کچھ دیر کھل کے رو لیتے اک تری یاد جو ہماری تھی اک ترا درد جو بچھو لیتے عالم مستی و طرب میں رہے خاک کی تیرگی میں سو لیتے حرف خوشبو کے رنگ میں لکھتی پھول گجروں میں جو پرو لیتے نارسائی تو خیر قسمت تھی اور کیا بچ گیا جو کھو لیتے کونج کر لا رہی تھی ...

    مزید پڑھیے

    خوشی تقسیم کرتی ہوں دل آزاری نہیں آتی

    خوشی تقسیم کرتی ہوں دل آزاری نہیں آتی مرا مقصد ہے غم خواری اداکاری نہیں آتی یہاں وہ آگے آتا ہے کہ جو فن کار ہوتا ہے مجھے درویشی کے چولے میں عیاری نہیں آتی ابھی سب کچھ میسر ہے کمی کوئی نہیں باقی نہ جانے پھر بھی پہلے جیسی سرشاری نہیں آتی مرے کچھ فیصلے میرے نہیں سو درگزر ...

    مزید پڑھیے

    سیاہ شال پہ جو اشک کاڑھتا ہوگا

    سیاہ شال پہ جو اشک کاڑھتا ہوگا کسے خبر تھی اسے مجھ سے مسئلہ ہوگا جو میرے ہوتے بچھڑنے کی بات کرتا تھا مری جدائی میں اک بار رو دیا ہوگا زمیں پہ پھیلے یہ کاغذ گواہی دیتے ہیں وہ کچھ نہ کچھ تو مرے نام لکھ رہا ہوگا فضا اداس ہے مہتاب ہے ملول کہ اب وہ زرد چہرے کو ہاتھوں میں بھر رہا ...

    مزید پڑھیے

    محبت رائیگانی ہے سنبھل جا

    محبت رائیگانی ہے سنبھل جا اذیت کی کہانی ہے سنبھل جا تجھے میراث میں ہجرت ملی ہے تبھی تو لا مکانی ہے سنبھل جا محبت جان کو آئی ہوئی ہے بلائے ناگہانی ہے سنبھل جا یہ برقی رابطے سے کٹ نہ جائے یہ رشتہ آسمانی ہے سنبھل جا اسے دریا سمجھ کر پار مت کر مری آنکھوں کا پانی ہے سنبھل جا یہ ...

    مزید پڑھیے

    نہ جانے کون سا منظر صدائیں دیتا ہے

    نہ جانے کون سا منظر صدائیں دیتا ہے میں پیلی دھوپ وہ نیلی ہوائیں دیتا ہے کسی کے چہرے پہ گرد ملال دیکھتی ہوں خدا کبھی نہ کبھی تو سزائیں دیتا ہے خیال یار نے آنکھیں ہماری نم رکھیں جمال یار پلٹ کے جفائیں دیتا ہے ترے مزار سے ویرے! مہک سی آتی ہے تو مجھ سے دور بھی رہ کر دعائیں دیتا ...

    مزید پڑھیے

    کاسنی رنگ کے خوابوں سے نکل آئی ہوں

    کاسنی رنگ کے خوابوں سے نکل آئی ہوں میٹھے پانی کے سرابوں سے نکل آئی ہوں تو نے جاتے ہوئے اک بار بھی دیکھا نہ اسے وہ جو کہتی تھی عذابوں سے نکل آئی ہوں برگزیدہ تھی تہجد بھی نہ چھوڑا کرتی اور اب سارے حسابوں سے نکل آئی ہوں آس تھی دید کی جو کاسہ لئے پھرتی تھی میں جوانی کے عذابوں سے نکل ...

    مزید پڑھیے

    کان لگا کے سنتی کیا ہے

    کان لگا کے سنتی کیا ہے کیا دیوار میں در رکھا ہے بیتے کل نے دستک دی ہے یادوں کا اک شہر ملا ہے کمرے کی دیوار کا گریہ ہاں ہاں میں نے آپ سنا ہے میری اک کروٹ پر جاگے نیند کا وہ کتنا کچا ہے روٹی مانگتے بچے کو تو کیسے دھکے مار رہا ہے سنتے ہیں اک شہزادی نے اک درویش کا ساتھ چنا ہے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    غم ترا آنکھ کے پانی سے نکل آیا تھا

    غم ترا آنکھ کے پانی سے نکل آیا تھا درد پھر اپنی فشانی سے نکل آیا تھا اس نے ہنستے ہوئے پوچھا تھا ستم گر کا پتا اور ترا نام روانی سے نکل آیا تھا اپنی آنکھوں میں جہاں بھر کی اداسی لے کر ایک کردار کہانی سے نکل آیا تھا عشق تو چارہ گری مانگتا ہے اس لیے زخم روح کی ریشہ داوانی سے نکل آیا ...

    مزید پڑھیے

    کتنا روکا مگر رکا ہی نہیں

    کتنا روکا مگر رکا ہی نہیں اور مڑ کر تو دیکھتا ہی نہیں تیری چوکھٹ کا بھاری دروازہ دستکیں دے کے بھی کھلا ہی نہیں مجھ میں اتنا بکھر گیا ہے وہ لاکھ چاہوں سمٹ رہا ہی نہیں صاحبا دوست مان رکھا تھا اور تو دکھ میں بولتا ہی نہیں ہجر نے خود بھی یہ گواہی دی واپسی کا تو راستہ ہی نہیں کنج ...

    مزید پڑھیے