نہ جانے کون سا منظر صدائیں دیتا ہے

نہ جانے کون سا منظر صدائیں دیتا ہے
میں پیلی دھوپ وہ نیلی ہوائیں دیتا ہے


کسی کے چہرے پہ گرد ملال دیکھتی ہوں
خدا کبھی نہ کبھی تو سزائیں دیتا ہے


خیال یار نے آنکھیں ہماری نم رکھیں
جمال یار پلٹ کے جفائیں دیتا ہے


ترے مزار سے ویرے! مہک سی آتی ہے
تو مجھ سے دور بھی رہ کر دعائیں دیتا ہے


غبار غم ہے شب ہجر اور میں کملی
فراق یار بھی کیا کیا ادائیں دیتا ہے


سفر کی دھول تھکن آبلے شکستہ بدن
یہ شعر یوں نہیں ہوتا بلائیں دیتا ہے


تو جس مقام پہ بیٹھی ہے رابعہ بصریؔ
فقط یہ نام ہی تجھ کو ضیائیں دیتا ہے