کتنا روکا مگر رکا ہی نہیں

کتنا روکا مگر رکا ہی نہیں
اور مڑ کر تو دیکھتا ہی نہیں


تیری چوکھٹ کا بھاری دروازہ
دستکیں دے کے بھی کھلا ہی نہیں


مجھ میں اتنا بکھر گیا ہے وہ
لاکھ چاہوں سمٹ رہا ہی نہیں


صاحبا دوست مان رکھا تھا
اور تو دکھ میں بولتا ہی نہیں


ہجر نے خود بھی یہ گواہی دی
واپسی کا تو راستہ ہی نہیں


کنج تنہائی میں اسیر عشق
خود سے باہر کبھی گیا ہی نہیں


ایک مدت سے آشنا ہیں مگر
آئنے سے مکالمہ ہی نہیں


کس محبت کی بات کرتے ہو
جس محبت میں دل جلا ہی نہیں


کس کو اتنا مقام دیتے ہم
اتنا اچھا کوئی لگا ہی نہیں


کچھ تو ہوتا کہ زندگی کرتے
اس تعلق کا کچھ صلہ ہی نہیں


ساری دنیا شمار بیٹھی ہوں
یعنی گنتی میں رابعہؔ ہی نہیں