ہوا کو تھام لیں خوشبو کا اہتمام کریں

ہوا کو تھام لیں خوشبو کا اہتمام کریں
سنور لیا ہو تو ہم چاند سے کلام کریں


ہم اپنے سوگ بھلا کے انہیں سلامی دیں
چلو کہ ہجر کے ماروں کا احترام کریں


گلاب رت میں کسی چھت پہ رنگ لے کے چلیں
جنوں میں بھیگنے والوں کا انتظام کریں


پرانے بیلیوں سے ملتے آئیں گاؤں میں
گلی میں بیٹھے فقیروں کو بھی سلام کریں


وہ شخص دوست تھا اب وہ عدو ہوا تو کیا
وہ آ رہا ہے جو ملنے تو اہتمام کریں


تمہیں یہ چاہ کہ اب لانگ ڈرائیو پہ نکلیں
ہمیں یہ فکر کہ دفتر کا تھوڑا کام کریں


ہم اپنی راہ سے بھٹکے ہوئے مسافر ہیں
کنہیں پڑی کہ کوئی شام اپنے نام کریں


بہت برس ہوئے ہیں پرورش کئے دکھ کی
چلو کہ درد کی شدت کا اہتمام کریں