کاسنی رنگ کے خوابوں سے نکل آئی ہوں

کاسنی رنگ کے خوابوں سے نکل آئی ہوں
میٹھے پانی کے سرابوں سے نکل آئی ہوں


تو نے جاتے ہوئے اک بار بھی دیکھا نہ اسے
وہ جو کہتی تھی عذابوں سے نکل آئی ہوں


برگزیدہ تھی تہجد بھی نہ چھوڑا کرتی
اور اب سارے حسابوں سے نکل آئی ہوں


آس تھی دید کی جو کاسہ لئے پھرتی تھی
میں جوانی کے عذابوں سے نکل آئی ہوں


میرے اطراف میں سب لوگ بہت اچھے ہیں
دیکھ میں سارے خرابوں سے نکل آئی ہوں


شب بہ شب جاگ کے پڑھتی ہوں رسالے دل کے
اب میں بچپن کی کتابوں سے نکل آئی ہوں


ہاتھ میں چوڑی نہیں پاؤں میں پازیب نہیں
عشق زادی تھی گلابوں سے نکل آئی ہوں