تم جو دامن ذرا بھگو لیتے

تم جو دامن ذرا بھگو لیتے
ہم بھی کچھ دیر کھل کے رو لیتے


اک تری یاد جو ہماری تھی
اک ترا درد جو بچھو لیتے


عالم مستی و طرب میں رہے
خاک کی تیرگی میں سو لیتے


حرف خوشبو کے رنگ میں لکھتی
پھول گجروں میں جو پرو لیتے


نارسائی تو خیر قسمت تھی
اور کیا بچ گیا جو کھو لیتے


کونج کر لا رہی تھی صحرا میں
آب و دانہ وہاں بھی بو لیتے


مٹ رہی ہوں رہ ہزیمت میں
اپنے ہاتھوں سے ہی ڈبو لیتے


رات کی شال اوڑھ کر یوں ہم
ریگ راہ رواں ہی ہو لیتے


سانس اپنی مہک مہک جاتی
ہاتھ سے پھول تیرے جو لیتے