غم ترا آنکھ کے پانی سے نکل آیا تھا
غم ترا آنکھ کے پانی سے نکل آیا تھا
درد پھر اپنی فشانی سے نکل آیا تھا
اس نے ہنستے ہوئے پوچھا تھا ستم گر کا پتا
اور ترا نام روانی سے نکل آیا تھا
اپنی آنکھوں میں جہاں بھر کی اداسی لے کر
ایک کردار کہانی سے نکل آیا تھا
عشق تو چارہ گری مانگتا ہے اس لیے زخم
روح کی ریشہ داوانی سے نکل آیا تھا
میں نے جب اس سے کہا میں بھی تو ہوں دیکھ مجھے
وہ مری یاد دہانی سے نکل آیا تھا