Om Prabhakar

اوم پربھاکر

  • 1941

اوم پربھاکر کی غزل

    بڑھا جو ہاتھ تو دیوار بیچ میں آئی

    بڑھا جو ہاتھ تو دیوار بیچ میں آئی اٹھی نگاہ تو مینار بیچ میں آئی سفر سبھی کا معین ہے ایک ہی در تک تو کس سبب سے یہ رفتار بیچ میں آئی حصار فرق کبھی کا سمٹ گیا ہوتا کبھی انا کبھی دستار بیچ میں آئی سمجھنا سوچنا سننا جہاں نہیں ممکن کہاں سے عشق میں گفتار بیچ میں آئی در بہشت رہا دو ...

    مزید پڑھیے

    میرے پیروں تلے جو دھرتی ہے

    میرے پیروں تلے جو دھرتی ہے میرے ہاتھوں ہی وہ بکھرتی ہے میں ہی دریا کی شکل بہتا ہوں اور مچھلی مجھی میں مرتی ہے ایک سورج ہے میرے سینے میں چاندنی جس کے پر کترتی ہے کوئی بے نیند رات چپکے سے شانۂ شام پر اترتی ہے جیسے جیسے وہ ہاتھ دھوتی ہے ویسے ویسے حنا نکھرتی ہے

    مزید پڑھیے

    خوشبو کا بھی وہی ہے جو ہے چلن ہوا کا

    خوشبو کا بھی وہی ہے جو ہے چلن ہوا کا اس کا بدن ہوا کا ہے پیرہن ہوا کا کل رات یاد جاناں یا چاندنی کے باعث بے حد چمک رہا تھا سیماب تن ہوا کا صدیوں گیا وہ اس کے پیچھے حد جہاں تک لیکن نہ ڈھونڈ پایا ملک و وطن ہوا کا اپنے بدن سے ہٹ کر محسوس کر سکو تو تم کو دکھائی دے گا عریاں بدن ہوا ...

    مزید پڑھیے

    کسی زمیں سے کسی آسماں سے آتے ہیں

    کسی زمیں سے کسی آسماں سے آتے ہیں غزل کے شعر تو دونوں جہاں سے آتے ہیں وہ چند لفظ دھڑکتے ہیں جو دلوں کی طرح مری زبان میں تیری زباں سے آتے ہیں چلے جو در سے ترے کھو گئیں سبھی سمتیں بتائیں کیسے کہ اب ہم کہاں سے آتے ہیں جہاں پہنچ کے نہ لوٹے کبھی فرشتے بھی وہ خلد ہو کہ نہ ہو ہم وہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    ہماری خلوتوں کی دھن در و دیوار سنتے ہیں

    ہماری خلوتوں کی دھن در و دیوار سنتے ہیں چمن کے رنگ و بو کی بندشوں کو خار سنتے ہیں ہوا سرگوشیاں کرتی ہے جو چڑیوں کے کانوں میں اسے اڑتے ہوئے رنگین گل پر دار سنتے ہیں ہوائیں حادثوں کے جو اشارے لے کے آتی ہیں انہیں ہم انسنا کر دیں مگر اشجار سنتے ہیں سبھی سنتے ہیں گھر میں صرف اپنی ...

    مزید پڑھیے

    جہاں زمیں سے جڑا آسمان دکھتا ہے

    جہاں زمیں سے جڑا آسمان دکھتا ہے اسی جگہ مجھے اپنا مکان دکھتا ہے پناہ دشت میں آیا دبیز شہر سے میں یہاں بھی جال شکاری مچان دکھتا ہے سفر میں آیا مرے ایک شہر ایسا بھی جہاں پہ دور سے امن و امان دکھتا ہے نظر ہماری اگر ہو ذرا فقیرانہ بہت سلیس یہ سارا جہان دکھتا ہے سنبھل کے دیکھ کہ اے ...

    مزید پڑھیے

    جہاں چھو کے دیکھوں وہیں پر خلا ہے

    جہاں چھو کے دیکھوں وہیں پر خلا ہے ہوا میں ہوا کے سوا اور کیا ہے ترے بعد یہ حال ہے شہر دل کا نہ بارش نہ طوفاں نہ باد صبا ہے لکھا ہے جو نظروں نے لوح نظر پر وہ دل کے سوا اور کس نے پڑھا ہے دھنسکنے لگا ہے وہ کمرہ کہ جس میں پرندوں کا چھوڑا ہوا گھونسلہ ہے کھلا ہے کہیں اک دریچہ ابھی ...

    مزید پڑھیے

    آب و گل اور کچھ ہوا دنیا

    آب و گل اور کچھ ہوا دنیا بس یہی ہے ترے سوا دنیا تھوڑی خوشیاں ہیں تھوڑی تکلیفیں اور تھوڑی سی ہے دعا دنیا اب میں اس کو کہاں کہاں ڈھونڈوں جس کے باعث ہوئی روا دنیا ایسا شاید کبھی ہوا ہوگا جب ہوئی میری ہم نوا دنیا پہلے دھندلا سا اک تصور تھی تجھ سے مل کر ہوئی ہے وا دنیا

    مزید پڑھیے

    سب ہیں سو میں بھی اس سفر میں ہوں

    سب ہیں سو میں بھی اس سفر میں ہوں دن میں گردش میں رات گھر میں ہوں گو کہ دیکھا نہیں وہ دہشت گرد شام کو خوف شب خطر میں ہوں کر نہیں پاتا کوئی اچھا کام جانے کس کی بری نظر میں ہوں منہ سے سچ بات کم نکلتی ہے کسی آسیب کے اثر میں ہوں دھیرے دھیرے دھسک رہا ہوں میں تھوڑا دیوار تھوڑا در میں ...

    مزید پڑھیے

    قیس کا بھی کہیں ٹھکانا ہو

    قیس کا بھی کہیں ٹھکانا ہو تھوڑا پانی ہو تھوڑا دانہ ہو اپنا پت جھڑ چھپا کے سینے میں باغ دنیا میں آنا جانا ہو سرد ہوں گرم ہوں ہوائیں ہوں موسم دل ذرا سہانا ہو ایک آنگن ہو دو منڈیریں ہوں اور تھوڑا سا چہچہانا ہو اک تصور ذرا سا لمس ہنر تیرا پیکر ہو جو بنانا ہو

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3