Om Prabhakar

اوم پربھاکر

  • 1941

اوم پربھاکر کی غزل

    جو نہیں ہے اسی کھلے در کو

    جو نہیں ہے اسی کھلے در کو جا رہا ہوں میں چھوڑ کر گھر کو اپنی دہلیز سے میں تا منزل ڈھونڈھتا ہی رہا ہوں رہبر کو کیا کروں جا کے قبر میں لیٹوں کیسے بھولوں میں موت کے ڈر کو تو بھی آتا ہے ساتھ ساتھ کہ جب یاد کرتا ہوں اپنے دلبر کو جا رہی ہے خزاں بغیچے سے چھوڑ کر دامن معطر کو یاد کرتا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی شکوہ کوئی گلہ رکھیے

    کوئی شکوہ کوئی گلہ رکھیے کچھ نہ کچھ جاری سلسلہ رکھیے مسئلے زندگی کے اپنی جگہ فصل گل کا بھی کچھ پتا رکھیے چند لمحے چھپا کے لوگوں سے خود کو خود میں بھی مبتلا رکھیے سب کو اپنائیے مگر خود سے خود کا تھوڑا سا فاصلہ رکھیے جسم دے دیجئے زمانے کو یاد سے صرف دل ملا رکھیے

    مزید پڑھیے

    کل سماعت دکھی صدا کو دوں

    کل سماعت دکھی صدا کو دوں جسم دھرتی کو جاں ہوا کو دوں اپنی ساری متاع عقل و خرد روٹھنے کی تری ادا کو دوں کل عناصر الگ الگ کر کے کچھ تجھے اور کچھ خدا کو دوں اک دھنک ہے مری نگاہوں میں تیری زلفوں کو یا گھٹا کو دوں دیکھوں کتنا لہو ٹپکتا ہے اب کے خنجر کف وفا کو دوں

    مزید پڑھیے

    میں گہری نیند میں تھا جب کہ یہ بھیجی گئی دنیا

    میں گہری نیند میں تھا جب کہ یہ بھیجی گئی دنیا اب استعمال کرنی ہے مجھے دے دی گئی دنیا بہ وقت صبح لگتا تھا کہ کچھ کچھ دسترس میں ہے جو آئی شام ہاتھوں سے مرے لے لی گئی دنیا پڑی ہے جا بجا ٹوٹے ہوئے شیشے کے ٹکڑوں سی کسی انجان کھڑکی سے کبھی پھینکی گئی دنیا مرے در پر نئے دن کو مہکتے پھول ...

    مزید پڑھیے

    سر پہ دست ہوا ہے صدیوں سے

    سر پہ دست ہوا ہے صدیوں سے غیب کا آسرا ہے صدیوں سے صرف دو پاؤں اور وسیع زمیں یہ بھی اک معجزہ ہے صدیوں سے ہے کم و بیش نیلگوں ہر شے درد کا سلسلہ ہے صدیوں سے جیسے پانی ہوا ہوا پانی مجھ میں تو مبتلا ہے صدیوں سے سننے والا ہو کوئی تو سن لے عشق نغمہ سرا ہے صدیوں سے

    مزید پڑھیے

    بھولا بسرا وقت پھر مہمان ہے

    بھولا بسرا وقت پھر مہمان ہے پھر وہی آنگن وہی دالان ہے ایک کمرہ ہے کہیں جس میں نہاں میرے بچپن کا سر و سامان ہے بت کدے میں جو بھی ہے پتھر کا ہے اور پتھر کا خدا انسان ہے بے طرح مشکل ہے تجھ کو دیکھنا سوچنا لیکن بڑا آسان ہے جل اٹھا کیوں کر مرے دل کا چراغ جب کہ سالوں سے یہ گھر ویران ...

    مزید پڑھیے

    نکلے ہیں دیوار سے چہرے

    نکلے ہیں دیوار سے چہرے بجھے بجھے بیمار سے چہرے اپنے ملنے والوں کے ہیں کیوں اتنے لاچار سے چہرے میرے گھر کے ہر کونے میں آ بیٹھے بازار سے چہرے عرصہ ہوا ہے نہیں دیکھے ہیں ہم نے سرخ انار سے چہرے وادی کے صندوق سے نکلے چمکیلے دینار سے چہرے

    مزید پڑھیے

    کب تلک بیٹھا رہے گا یہ جہاں در پر مرے

    کب تلک بیٹھا رہے گا یہ جہاں در پر مرے اور کتنے دن رہے گا آسماں سر پر مرے معجزہ قسمت کا ہے یا ہے یہ ہاتھوں کا ہنر آ گرا میرا جگر ہی آج نشتر پر مرے چھٹپٹاتا ہے بیچارہ ریگ زاروں سے گھرا کوئی تو دست کرم ہوتا سمندر پر مرے جو جہاں پر ہے وہیں پر گھل رہا ہے دن بہ دن چھا گئی ہے بے حسی کی ...

    مزید پڑھیے

    چند الفاظ کچھ احوال بچا رکھے ہیں

    چند الفاظ کچھ احوال بچا رکھے ہیں ہم نے دو ایک ہی اعمال بچا رکھے ہیں پہلے گاتے تھے بجاتے تھے ہواؤں کے مزاج اب تو ٹوٹے ہوئے سر تال بچا رکھے ہیں اڑ گئے حسن و جوانی کے پرندے کب کے ہاں تصور میں خد و خال بچا رکھے ہیں بیٹھا کرتا تھا کبھی آ کے جو طائر اس کے اک دریچے نے پر و بال بچا رکھے ...

    مزید پڑھیے

    یاد رکھنے سے بھول جانے سے

    یاد رکھنے سے بھول جانے سے کٹ گئے دن کسی بہانے سے میں سراپا ہوا دھنک صورت تیرے کچھ کچھ قریب آنے سے گھر میں بھوچال آ گیا ہوتا صرف دروازہ کھٹکھٹانے سے اب تو اتنا ہی یاد آتا ہے کوئی شکوہ سا تھا زمانے سے کل بغیچہ ہی بن گیا نغمہ ایک پنچھی کے چہچہانے سے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3