Om Prabhakar

اوم پربھاکر

  • 1941

اوم پربھاکر کی غزل

    راستہ ہے پر خطر یہ سوچ کر

    راستہ ہے پر خطر یہ سوچ کر صبح سے بیٹھا ہوں میں دہلیز پر شاخ تنہا پر کبھی تھا آشیاں آشیاں میں آسمان و بال و پر بے در و دیوار دنیا عشق کی کھو گیا سنسار زیر بام و در ٹوٹتا جاتا ہے میرا حوصلہ آ رہا ہے میری جانب راہبر چل کہ تجھ کو تیرے گھر تک چھوڑ دوں تو اگر رہنے دے مجھ کو میرے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ نظارے ہیں کچھ نظر باقی

    کچھ نظارے ہیں کچھ نظر باقی اور کچھ کوس کا سفر باقی رہ گیا ہے کتاب میں دن کی شام کا باب مختصر باقی اس خزاں میں بھی کچھ مہکتا ہے دل ہے باقی ابھی جگر باقی خاک ہی خاک ہوں مگر چھو مت عشق کا ہے ابھی شرر باقی وقت رخصت پلٹ کے برسی جو ہے نگاہوں میں وہ نظر باقی دھل گئی تھی جو تیرے اشکوں ...

    مزید پڑھیے

    گزر گیا جو نظر سے نظر کا حصہ ہے

    گزر گیا جو نظر سے نظر کا حصہ ہے شجر سے اڑتا پرندہ شجر کا حصہ ہے تمہارا درد اگر درد نارسائی ہے تمہارا درد ہمارے جگر کا حصہ ہے نہ وہ تمہارے یہاں ہے نہ وہ ہمارے یہاں اداس چولہا کہو کس کے گھر کا حصہ ہے جہاں کے لوگ خدا کے کرم پہ زندہ ہیں علاقہ وہ بھی ہمارے نگر کا حصہ ہے سفر سفر ہے سفر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3