بڑھا جو ہاتھ تو دیوار بیچ میں آئی

بڑھا جو ہاتھ تو دیوار بیچ میں آئی
اٹھی نگاہ تو مینار بیچ میں آئی


سفر سبھی کا معین ہے ایک ہی در تک
تو کس سبب سے یہ رفتار بیچ میں آئی


حصار فرق کبھی کا سمٹ گیا ہوتا
کبھی انا کبھی دستار بیچ میں آئی


سمجھنا سوچنا سننا جہاں نہیں ممکن
کہاں سے عشق میں گفتار بیچ میں آئی


در بہشت رہا دو قدم کہ لوٹ آیا
وطن کی صورت لاچار بیچ میں آئی