ہماری خلوتوں کی دھن در و دیوار سنتے ہیں
ہماری خلوتوں کی دھن در و دیوار سنتے ہیں
چمن کے رنگ و بو کی بندشوں کو خار سنتے ہیں
ہوا سرگوشیاں کرتی ہے جو چڑیوں کے کانوں میں
اسے اڑتے ہوئے رنگین گل پر دار سنتے ہیں
ہوائیں حادثوں کے جو اشارے لے کے آتی ہیں
انہیں ہم انسنا کر دیں مگر اشجار سنتے ہیں
سبھی سنتے ہیں گھر میں صرف اپنی اپنی دلچسپی
دھنسکتے بام و در کی سسکیاں معمار سنتے ہیں
زباں جو دل میں رہتی ہے کبھی لب پر نہیں آتی
اسے کوئی نہیں سنتا مگر فن کار سنتے ہیں