جہاں چھو کے دیکھوں وہیں پر خلا ہے
جہاں چھو کے دیکھوں وہیں پر خلا ہے
ہوا میں ہوا کے سوا اور کیا ہے
ترے بعد یہ حال ہے شہر دل کا
نہ بارش نہ طوفاں نہ باد صبا ہے
لکھا ہے جو نظروں نے لوح نظر پر
وہ دل کے سوا اور کس نے پڑھا ہے
دھنسکنے لگا ہے وہ کمرہ کہ جس میں
پرندوں کا چھوڑا ہوا گھونسلہ ہے
کھلا ہے کہیں اک دریچہ ابھی بھی
کہ جس میں کوئی خوب صورت کھڑا ہے
مرا درد میرا ہے اس کا اسی کا
تو کیوں غم گساری کا یہ سلسلہ ہے