کسی زمیں سے کسی آسماں سے آتے ہیں
کسی زمیں سے کسی آسماں سے آتے ہیں
غزل کے شعر تو دونوں جہاں سے آتے ہیں
وہ چند لفظ دھڑکتے ہیں جو دلوں کی طرح
مری زبان میں تیری زباں سے آتے ہیں
چلے جو در سے ترے کھو گئیں سبھی سمتیں
بتائیں کیسے کہ اب ہم کہاں سے آتے ہیں
جہاں پہنچ کے نہ لوٹے کبھی فرشتے بھی
وہ خلد ہو کہ نہ ہو ہم وہاں سے آتے ہیں
وہ ہم سفر کہ جو رہتے ہیں آخری دم تک
بہت پرانی کسی داستاں سے آتے ہیں