جو نہیں ہے اسی کھلے در کو

جو نہیں ہے اسی کھلے در کو
جا رہا ہوں میں چھوڑ کر گھر کو


اپنی دہلیز سے میں تا منزل
ڈھونڈھتا ہی رہا ہوں رہبر کو


کیا کروں جا کے قبر میں لیٹوں
کیسے بھولوں میں موت کے ڈر کو


تو بھی آتا ہے ساتھ ساتھ کہ جب
یاد کرتا ہوں اپنے دلبر کو


جا رہی ہے خزاں بغیچے سے
چھوڑ کر دامن معطر کو


یاد کرتا ہے رات بھر امبر
تیر کھائے پرند کے پر کو