چند الفاظ کچھ احوال بچا رکھے ہیں
چند الفاظ کچھ احوال بچا رکھے ہیں
ہم نے دو ایک ہی اعمال بچا رکھے ہیں
پہلے گاتے تھے بجاتے تھے ہواؤں کے مزاج
اب تو ٹوٹے ہوئے سر تال بچا رکھے ہیں
اڑ گئے حسن و جوانی کے پرندے کب کے
ہاں تصور میں خد و خال بچا رکھے ہیں
بیٹھا کرتا تھا کبھی آ کے جو طائر اس کے
اک دریچے نے پر و بال بچا رکھے ہیں
ایک نادیدہ صنم بھی ہے کہیں تیرے سوا
اس کی خاطر یہ مہ و سال بچا رکھے ہیں