بھولا بسرا وقت پھر مہمان ہے

بھولا بسرا وقت پھر مہمان ہے
پھر وہی آنگن وہی دالان ہے


ایک کمرہ ہے کہیں جس میں نہاں
میرے بچپن کا سر و سامان ہے


بت کدے میں جو بھی ہے پتھر کا ہے
اور پتھر کا خدا انسان ہے


بے طرح مشکل ہے تجھ کو دیکھنا
سوچنا لیکن بڑا آسان ہے


جل اٹھا کیوں کر مرے دل کا چراغ
جب کہ سالوں سے یہ گھر ویران ہے


کب تجھے بھولا نہیں یاد آ رہا
ہاں ترے ہونے کا مجھ کو دھیان ہے