Nihal Rizvi Lucknowi

نہال رضوی لکھنوی

نہال رضوی لکھنوی کی غزل

    یہ سمجھنے کی کس کو فرصت ہے

    یہ سمجھنے کی کس کو فرصت ہے زندگی موت کی امانت ہے ان کو پایا تو یہ ہوا محسوس جیسے مجھ کو مری ضرورت ہے اتنے جلوے قریب ہیں اس کے جتنی جس کی نظر میں وسعت ہے آج کل ہم ہیں اور وہ منزل جس میں ہر ہر قدم پہ زحمت ہے دوسروں کے لئے فنا ہو جاؤ یہی معراج آدمیت ہے اس تجاہل سے پوچھنے کے ...

    مزید پڑھیے

    ہم ان سے چھوٹ کے یوں زندگی کے ساتھ رہے

    ہم ان سے چھوٹ کے یوں زندگی کے ساتھ رہے کہ جیسے کوئی کسی اجنبی کے ساتھ رہے بڑے مزے کی ہے دونوں کی داستان حیات ہم ان کے ساتھ رہے وہ خودی کے ساتھ رہے اس انجمن میں جہاں سب حریف الفت تھے ہم اہل عشق بڑی بے بسی کے ساتھ رہے جہاں جہاں میں گیا وہ وہاں وہاں مرے ساتھ رہے ضرور مگر بے رخی کے ...

    مزید پڑھیے

    زاہد تری نگاہ خدا آشنا نہیں

    زاہد تری نگاہ خدا آشنا نہیں تو جانتا ضرور ہے پہچانتا نہیں جنگل کے پھول سے ہے عبارت مرا نصیب وہ ناؤ ہوں کہ جس کا کوئی ناخدا نہیں کیا جانے کیسے شہر خموشاں کے لوگ ہیں آواز دے رہا ہوں کوئی بولتا نہیں حیرت ہے جس کا تاج محل پیش لفظ ہے لوگوں نے اس کتاب کو اب تک پڑھا نہیں لے آئی ہے ...

    مزید پڑھیے

    میری سحر سحر نہ مری شام شام ہے

    میری سحر سحر نہ مری شام شام ہے میں وہ کتاب ہوں جو ابھی ناتمام ہے دنیا ہے یہ یہاں کا عجب انتظام ہے غم کو قیام ہے نہ خوشی کو قیام ہے تھوڑا سا جستجوئے نظر تیرا کام ہے جلوہ کسی کا عام نہ ہونے پہ عام ہے ان کی نظر میں اپنی جگہ پا رہے ہیں ہم شاید اسی کا نام فریب تمام ہے جس میں شریک ہوں ...

    مزید پڑھیے

    اس بزم سے پلٹے ہیں تو غافل سے ملے ہیں

    اس بزم سے پلٹے ہیں تو غافل سے ملے ہیں اکثر تو ہم اپنے کو بھی مشکل سے ملے ہیں انسان کو ہمدردیٔ انسان کے احساس راحت سے نہیں کرب کی محفل سے ملے ہیں یہ وقت کی خوبی ہے کہ فن کار سے فن کار کس دل سے ملا کرتے تھے کس دل سے ملے ہیں دریا نے ترس کھا کے ڈبویا نہیں جس کو طوفان اسی ناؤ کو ساحل سے ...

    مزید پڑھیے

    دل میں ترے خیال کی دنیا لئے ہوئے

    دل میں ترے خیال کی دنیا لئے ہوئے بیٹھا ہوں ایک کوزے میں دریا لئے ہوئے جس میں نہ زندگی کا سکوں ہے نہ کیفیت کچھ لوگ خوش ہیں ایسا سویرا لئے ہوئے یا رب غرور ضبط محبت کی خیر ہو آنکھیں ہیں اک تھما ہوا دریا لئے ہوئے فیض بہار و جشن چراغاں کے باوجود کچھ راستے ہیں اب بھی اندھیرا لئے ...

    مزید پڑھیے

    میخانے میں الفت کے نگہبان بہت ہیں

    میخانے میں الفت کے نگہبان بہت ہیں اس چھوٹی سی بستی میں بھی انسان بہت ہیں خود اپنی تباہی کا ہمیں رنج نہیں ہے توہین محبت سے پریشان بہت ہیں آج ان کو ہوا ہے غلط احساس کا احساس آئینہ جو دیکھا ہے تو حیران بہت ہیں میخانے میں روز آنے کی کیوں کرتا ہے زحمت زاہد تری تبلیغ کے میدان بہت ...

    مزید پڑھیے

    ستم کو لطف جفا کو وفا بنا نہ سکے

    ستم کو لطف جفا کو وفا بنا نہ سکے تمہیں نے آگ لگائی تمہیں بجھا نہ سکے ہم ان کو ترک تعلق پہ بھی بھلا نہ سکے گرہ ہوا میں لگائی مگر لگا نہ سکے بڑے مزے کی ہے دونوں طرف کی مجبوری کوئی بلا نہ سکے کوئی پاس آ نہ سکے عجب روش ہے عجب انتظام گلشن ہے کوئی تو خوب ہنسے کوئی مسکرا نہ سکے شراب کیف ...

    مزید پڑھیے

    جو یہ کہوں تو قناعت پہ حرف آتا ہے

    جو یہ کہوں تو قناعت پہ حرف آتا ہے چراغ خود نہیں جلتا جلایا جاتا ہے وہ آدمی جو زمانے سے دل لگاتا ہے قدم قدم پہ فریب حیات کھاتا ہے حیات عشق میں وہ منزلیں بھی آتی ہیں جہاں پہ مصلحتاً مسکرایا جاتا ہے چمن میں خار کی صورت اگر رہا بھی تو کیا وہ پھولبن جو چمن کو چمن بناتا ہے کلی کی دل ...

    مزید پڑھیے

    اٹھی اس روئے روشن سے نقاب آہستہ آہستہ

    اٹھی اس روئے روشن سے نقاب آہستہ آہستہ سوا نیزے پہ آیا آفتاب آہستہ آہستہ کوئی پی کر چلے جیسے شراب آہستہ آہستہ یوں ہی آتا ہے وہ مست شباب آہستہ آہستہ جوانی ان میں پیدا بے نیازی کرتی جاتی ہے یہ کیسا ہو رہا ہے انقلاب آہستہ آہستہ مرتب ہو رہا ہے اس طرح افسانۂ ہستی بھرا جاتا ہے جیسے ...

    مزید پڑھیے