ہم ان سے چھوٹ کے یوں زندگی کے ساتھ رہے
ہم ان سے چھوٹ کے یوں زندگی کے ساتھ رہے
کہ جیسے کوئی کسی اجنبی کے ساتھ رہے
بڑے مزے کی ہے دونوں کی داستان حیات
ہم ان کے ساتھ رہے وہ خودی کے ساتھ رہے
اس انجمن میں جہاں سب حریف الفت تھے
ہم اہل عشق بڑی بے بسی کے ساتھ رہے
جہاں جہاں میں گیا وہ وہاں وہاں مرے ساتھ
رہے ضرور مگر بے رخی کے ساتھ رہے
ترے کرم کے تری التفات کے جلوے
مرے جہاں میں نہایت کمی کے ساتھ رہے
وہی سمجھتے تھے مفہوم زندگی شاید
بہ قید ہوش جو دیوانگی کے ساتھ رہے
متاع عشرت بے نام کی طلب میں نہالؔ
غموں کے شہر میں بھی ہم خوشی کے ساتھ رہے