یہ سمجھنے کی کس کو فرصت ہے
یہ سمجھنے کی کس کو فرصت ہے
زندگی موت کی امانت ہے
ان کو پایا تو یہ ہوا محسوس
جیسے مجھ کو مری ضرورت ہے
اتنے جلوے قریب ہیں اس کے
جتنی جس کی نظر میں وسعت ہے
آج کل ہم ہیں اور وہ منزل
جس میں ہر ہر قدم پہ زحمت ہے
دوسروں کے لئے فنا ہو جاؤ
یہی معراج آدمیت ہے
اس تجاہل سے پوچھنے کے نثار
کیا ہمیں سے تمہیں محبت ہے
زندگی غفلت تمام سہی
موت تعبیر خواب غفلت ہے
ذکر مسجد میں میکدے کا شیخ
آپ کا دم بہت غنیمت ہے
جس میں ہو جائیں مہرباں وہ نہالؔ
حاصل زندگی وہ ساعت ہے