اس بزم سے پلٹے ہیں تو غافل سے ملے ہیں

اس بزم سے پلٹے ہیں تو غافل سے ملے ہیں
اکثر تو ہم اپنے کو بھی مشکل سے ملے ہیں


انسان کو ہمدردیٔ انسان کے احساس
راحت سے نہیں کرب کی محفل سے ملے ہیں


یہ وقت کی خوبی ہے کہ فن کار سے فن کار
کس دل سے ملا کرتے تھے کس دل سے ملے ہیں


دریا نے ترس کھا کے ڈبویا نہیں جس کو
طوفان اسی ناؤ کو ساحل سے ملے ہیں


معلوم ہے جن کو سفر عشق کا انجام
منزل کی طرح وہ غم منزل سے ملے ہیں


دیکھا تو بظاہر وہ دکھائی نہیں دیتے
سوچا تو ہر اک چیز میں شامل سے ملے ہیں


کچھ روز سے اس رشک محبت کی بدولت
دل ہم سے ملا اور نہ ہم دل سے ملے ہیں


کیا ہوگا ترا اے سفر الفت انساں
رہبر بھی تو گم کردۂ منزل سے ملے ہیں


یہ دور نہالؔ اصل میں وہ دور ہے جس میں
ڈھونڈا ہے تو انسان بھی مشکل سے ملے ہیں