ستم کو لطف جفا کو وفا بنا نہ سکے

ستم کو لطف جفا کو وفا بنا نہ سکے
تمہیں نے آگ لگائی تمہیں بجھا نہ سکے


ہم ان کو ترک تعلق پہ بھی بھلا نہ سکے
گرہ ہوا میں لگائی مگر لگا نہ سکے


بڑے مزے کی ہے دونوں طرف کی مجبوری
کوئی بلا نہ سکے کوئی پاس آ نہ سکے


عجب روش ہے عجب انتظام گلشن ہے
کوئی تو خوب ہنسے کوئی مسکرا نہ سکے


شراب کیف شراب خوشی شراب سکوں
نہ جانے پی نہ سکے ہم کہ وہ پلا نہ سکے


ہر اضطراب کو ہم نے سکوں سے بدلا ہے
وہ اور ہوں گے جو طوفاں کے ناز اٹھا نہ سکے


حیات شبنم و عمر شمیم گل معلوم
وہ نقش بن کہ زمانہ جسے مٹا نہ سکے


بہت قریب سے دیکھا ہے ہم نے دنیا کو
یہ پھول وہ ہے کسی کے جو کام آ نہ سکے


مری پکار نے بیدار کر دیا ان کو
تغیرات زمانہ جنہیں جگا نہ سکے


میں ہر زباں کا بہی خواہ ہوں نہالؔ مگر
یہ چاہتا ہوں کہ اردو پہ آنچ آ نہ سکے