اٹھی اس روئے روشن سے نقاب آہستہ آہستہ
اٹھی اس روئے روشن سے نقاب آہستہ آہستہ
سوا نیزے پہ آیا آفتاب آہستہ آہستہ
کوئی پی کر چلے جیسے شراب آہستہ آہستہ
یوں ہی آتا ہے وہ مست شباب آہستہ آہستہ
جوانی ان میں پیدا بے نیازی کرتی جاتی ہے
یہ کیسا ہو رہا ہے انقلاب آہستہ آہستہ
مرتب ہو رہا ہے اس طرح افسانۂ ہستی
بھرا جاتا ہے جیسے ظرف آب آہستہ آہستہ
مری آہیں مرے نالے مری سانسیں مرے آنسو
بنے آئینہ دار انقلاب آہستہ آہستہ
محبت کا تقاضا اک سوال صاف تھا لیکن
دیا اس نے بہت مبہم جواب آہستہ آہستہ
کبھی تو ہوگی حسن و عشق کی فطرت میں یکسوئی
بنیں گے آپ بھی میرا جواب آہستہ آہستہ
نہالؔ اس نے مجھے کونین کی دولت عطا کر دی
اٹھا کر روئے روشن سے نقاب آہستہ آہستہ