میخانے میں الفت کے نگہبان بہت ہیں

میخانے میں الفت کے نگہبان بہت ہیں
اس چھوٹی سی بستی میں بھی انسان بہت ہیں


خود اپنی تباہی کا ہمیں رنج نہیں ہے
توہین محبت سے پریشان بہت ہیں


آج ان کو ہوا ہے غلط احساس کا احساس
آئینہ جو دیکھا ہے تو حیران بہت ہیں


میخانے میں روز آنے کی کیوں کرتا ہے زحمت
زاہد تری تبلیغ کے میدان بہت ہیں


آگاہ نہیں ہنسنے کے انجام سے شاید
وہ پھول جنہیں ہنسنے کے ارمان بہت ہیں


مغموم نہ ہو تنگ نگاہیٔ جہاں سے
بلقیس ادب تیرے سلیمان بہت ہیں


ساحل پہ پہنچنے کی کرے کون تمنا
دریا میں سفینے کے نگہبان بہت ہیں


بجلی کی صفت شعلہ فشانی ہی نہیں ہے
بجلی کی اماں میں بھی گلستان بہت ہیں


اے گیسوئے شب رنگ ہمیں بھی تو اماں دے
ہم کو بھی تری چھاؤں کے ارمان بہت ہیں


ہم نے تو یہ سمجھا ہے نہالؔ اب بھی غزل کو
کہنے کا سلیقہ ہو تو عنوان بہت ہیں