زاہد تری نگاہ خدا آشنا نہیں

زاہد تری نگاہ خدا آشنا نہیں
تو جانتا ضرور ہے پہچانتا نہیں


جنگل کے پھول سے ہے عبارت مرا نصیب
وہ ناؤ ہوں کہ جس کا کوئی ناخدا نہیں


کیا جانے کیسے شہر خموشاں کے لوگ ہیں
آواز دے رہا ہوں کوئی بولتا نہیں


حیرت ہے جس کا تاج محل پیش لفظ ہے
لوگوں نے اس کتاب کو اب تک پڑھا نہیں


لے آئی ہے محبت انساں مجھے وہاں
جس راستے میں اور کوئی نقش پا نہیں


کیا ہوگا اس سفینے کا انجام اے نہالؔ
طوفاں سے کھیلنے کا جسے حوصلہ نہیں