دل میں ترے خیال کی دنیا لئے ہوئے
دل میں ترے خیال کی دنیا لئے ہوئے
بیٹھا ہوں ایک کوزے میں دریا لئے ہوئے
جس میں نہ زندگی کا سکوں ہے نہ کیفیت
کچھ لوگ خوش ہیں ایسا سویرا لئے ہوئے
یا رب غرور ضبط محبت کی خیر ہو
آنکھیں ہیں اک تھما ہوا دریا لئے ہوئے
فیض بہار و جشن چراغاں کے باوجود
کچھ راستے ہیں اب بھی اندھیرا لئے ہوئے
تعمیر قصر نو کی تمنا بجا مگر
خود شیشہ گر ہے ہاتھ میں تیشہ لئے ہوئے
جب بھی اس انجمن میں گئے ہیں ہم اے نہالؔ
پیشانیاں ملی ہیں پسینہ لئے ہوئے