نگہت صاحبہ کی نظم

    التجا

    ہم وہ نہیں جو تم سمجھتے ہو ہم وہ ہیں جو تم نہیں سمجھتے ہم لاش کے منہ پہ اپنی نظم کی مٹی ڈالتے ہیں اور چین سے سو جاتے ہیں صبح اٹھ کر کام کی تلاش میں نکلتے ہیں ہمیں ایسے مت دیکھو جیسے سوکھی گھاس بادل کو دیکھتی ہے ہمیں ایسے دیکھو جیسے مرنے والا گور کن کو دیکھتا ہے

    مزید پڑھیے

    بازی

    وہ جیتا میں ہاری میں روئی وہ ہارا میں جیتی میں روئی

    مزید پڑھیے

    ووٹ آف تھینکس

    شکریہ سب باغبانوں کا جنہوں نے اپنی محبت اور لگن سے میرے دل کی زمین کو اس قابل بنایا کہ اب وہاں صرف بے حس کی جھاڑیاں اگتی ہیں

    مزید پڑھیے

    لاڈلی

    ستر جوڑے سلوائے میری ماں نے میرے لیے سارے اپنی ناپ کے

    مزید پڑھیے

    بڑھیا کا آخری گیت

    لوگ مرے کھوٹے سکے جب گلے میں ڈال کر اتراتے ہیں ہنس دیتی ہوں ہنستے ہنستے آنکھوں میں آنسو آتے ہیں

    مزید پڑھیے

    پیریڈ

    میں نے خون آلود کپڑے تب دھوئے ہیں جب مجھے معلوم نہیں تھا کہ خون سے بچے بنتے ہیں اور بچوں کو جمہوری ممالک دریافت کرتے ہیں اور کاروں میں تیل کی جگہ استعمال کرتے ہیں

    مزید پڑھیے

    وارڈ نمبر ۳۰۴

    اندھیرا میرے سینے سے نکل کر پھیلتا ہے چار سو تو رات ہوتی ہے یہاں سورج کے اگنے ڈوبنے سے کچھ نہیں ہوتا

    مزید پڑھیے

    بچت

    ہم نے گھر بنانے کے نا مراد چکر میں تیلیاں بچائی ہیں انگلیاں جلائی ہیں

    مزید پڑھیے

    بیچ کی لکیر

    سورج کے قاتل دھوپ سینکنے کہاں جائے گی پالا ماری سارا بدن بدن جائے گا ان کا بھی جنہوں نے بس تماشہ دیکھا کہا کچھ نہیں نہ سورج سے نہ اندھیرے سے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3