نگہت صاحبہ کے تمام مواد

3 غزل (Ghazal)

    اب بھی پلکوں پہ کچھ گھٹائیں ہیں

    اب بھی پلکوں پہ کچھ گھٹائیں ہیں بھیگے موسم ہیں نم ہوائیں ہیں رات خوابوں میں کون آیا تھا کس لیے اوج پر ادائیں ہیں دل اسی شخص کی بلائیں لے جس کے ہونے سے سب بلائیں ہیں جن کو اوڑھا ہے بے حجابی میں وہ ترے پیار کی قبائیں ہیں حسب معمول بے رخی اس کی حسب عادت مری صدائیں ہیں

    مزید پڑھیے

    شہر میں دریا دلی کی لن ترانی اور ہے

    شہر میں دریا دلی کی لن ترانی اور ہے پر مرے پنگھٹ سے بہتا ہے جو پانی اور ہے جو تری پسلی سے نکلی تھی وہ کوئی اور تھی یہ جو آنگن میں کھلی ہے شب کی رانی اور ہے آرزوئے رنگ میں کوری چنریا کھو گئی مل گئی واپس جو وہ میلی نشانی اور ہے چمنیوں سے جو دھواں اٹھا تھا شاید خواب تھا بند دروازوں ...

    مزید پڑھیے

    حاشیے پر لکھی ہوئی ہوں میں

    حاشیے پر لکھی ہوئی ہوں میں امن کی بات آخری ہوں میں میں وہیں ہوں جہاں ملے تھے ہم کس قدر پیچھے رہ گئی ہوں میں اس سے کہنا تھا بھول جاؤ مجھے فون پر فون کر رہی ہوں میں جب وہ گہنے دکھانے آتی ہے اس کے سب چھید دیکھتی ہوں میں بیچ کر زیورات شادی کے چند خوشیاں خریدتی ہوں میں تم گرا کر ...

    مزید پڑھیے

23 نظم (Nazm)

    پھولوں کی سیج پر

    جب تم وہ پڑھنا چاہتے ہو جو مجھے لکھنا نہیں آتا اور ناامید ہو کر اپنے چہرے کے نقوش بدل دیتے ہو ہماری آنکھوں کے بیچ سات زمینیں اور سات آسمان آ جاتے ہیں اور میری آنکھیں تاریخ کے کھوئے ہوئے اوراق ڈھونڈنے لگ جاتی ہیں تم پوچھتے ہو ایسے کیوں دیکھتی ہو میں واپس آ جاتی ہوں اور تمہیں سچ مچ ...

    مزید پڑھیے

    نگیٹوٹی

    مرنے اور مارنے والے ایک ہی قبیلے سے تھے خوش ہو کر تالیاں بجانے والے سفید براق کپڑے پہنے ہوئے تھے ماتم کرنے والے زندگی سے بھاگے ہوئے دو بزدل لوگ تھے جو ایک لفظ کو صحیح جگہ پر رکھنے کے لیے گھنٹوں پریشان رہتے تھے بہ ہر حال طے ہوا کہ عالم انسانیت کو بزدلوں سے پاک کیا جائے ورنہ ...

    مزید پڑھیے

    حادثہ

    نظم مر گئی اس دن جب میں نے بیس روپے بچانے کے لیے موٹر گاڑی کو رکشے پہ فوقیت دی اب میں لکھنے بیٹھتی ہوں تو کمبخت رکشے والے کی بے بس آنکھیں کاغذ میں سے جھانکتی ہیں میں ڈایری پھینک دیتی ہوں

    مزید پڑھیے

    التجا

    ہم وہ نہیں جو تم سمجھتے ہو ہم وہ ہیں جو تم نہیں سمجھتے ہم لاش کے منہ پہ اپنی نظم کی مٹی ڈالتے ہیں اور چین سے سو جاتے ہیں صبح اٹھ کر کام کی تلاش میں نکلتے ہیں ہمیں ایسے مت دیکھو جیسے سوکھی گھاس بادل کو دیکھتی ہے ہمیں ایسے دیکھو جیسے مرنے والا گورکن کو دیکھتا ہے

    مزید پڑھیے

تمام