وہ بحر کرم جو مہرباں ہو جائے
وہ بحر کرم جو مہرباں ہو جائے ہر دامن تر صبح جناں ہو جائے اس کی رحمت جو ہو خریدار منیرؔ جنس عصیاں بہت گراں ہو جائے
معروف کلاسیکی شاعر جنہونے 1857 کے غدر میں حصّہ لیا
Prominent classical poet who was part of the first war of independence in 1857.
وہ بحر کرم جو مہرباں ہو جائے ہر دامن تر صبح جناں ہو جائے اس کی رحمت جو ہو خریدار منیرؔ جنس عصیاں بہت گراں ہو جائے
اپنے آقا کی ہر گھڑی یاد میں ہوں ہر وقت منیرؔ آہ و فریاد میں ہوں اس شہر کے نام میں ہے تشدید بلا آرے کے تلے میں فرخ آباد میں ہوں
بے فائدہ رکھتا نہیں سر ہاتھوں پر سر پر جو ہے ہاتھ اس میں ہے لطف دگر آقا کے سلام و نظر کی حسرت میں رہتا ہوں منیرؔ سر بکف و دست بسر
جراح کے سامنے کھولا پھوڑا میزان نظر میں اس نے تولا پھوڑا پھوڑے کی جگہ بغل میں دیکھے جو منیرؔ سب کہنے لگے دل کا پھپھولا پھوڑا
مضمون اگر راہ میں ہاتھ آتا ہے خامہ چلنے میں ٹھوکریں کھاتا ہے حال خط تقدیر کھلا آج منیرؔ اپنا لکھا پڑھا نہیں جاتا ہے
ہر چند گناہوں سے ہوں میں نامہ سیاہ رحمت ہے کثیر اس کی مصحف ہے گواہ زاہد ناجی ہوا اور مجرم ناری لا حول ولا قوۃ الا باللہ
پھوڑے نے سفر میں سخت گھبرایا ہے کلکتہ کی راہ میں یہ دکھ پایا ہے کیا درد کنار نے ستایا ہے منیرؔ یہ گرگ بغل راہ میں ہاتھ آیا ہے
عاشق ہی فقط نہیں ہے جنجالوں میں ہر طائر دل پھنسا ہے ان جالوں میں باہر اس سلسلہ سے ہے کون منیرؔ بوڑھے بھی ہیں اس جوان کے بالوں میں
کلکتہ کو ڈاک میں چلا ہوں جو میں آہ غیروں کے پاؤں سے ہوئی قطع یہ راہ ہیں تیز کہار پالکی میں ہوں سوار کیا خانہ بدوش میں چلا ہوں واللہ