مبشر علی زیدی کی نظم

    مغوی

    ایک صبح میں بیدار ہوا تو خدا غائب تھا یہ بے حد تشویش کی بات تھی مجھے اس کی تلاش میں نکلنا پڑا بستی میں اس کا نشان نہیں ملا میں نے ایک کھوجی سے رابطہ کیا اس نے کھرا دیکھ کر بتایا خدا کو بردہ فروشوں نے اغوا کر لیا ہے میں نے پولیس سے رابطہ کیا تھانے دار نے خدا کی رپورٹ درج کرنے سے ...

    مزید پڑھیے

    تلاش

    اہل عقل کے ساتھ میں کچھ دور چلا خدا نہیں ملا اہل کتاب کے ساتھ میں کچھ دور چلا جواب نہیں ملا اہل اقتدار کے ساتھ میں کچھ دور چلا معرفت نہیں ملی اہل تذبذب کے ساتھ میں کچھ دور چلا قرار نہیں ملا اہل عشق کے ساتھ میں کچھ دور چلا حسین مل گیا

    مزید پڑھیے

    ترکھان

    کرسی میں نکلی ہوئی کیل کی طرح سیاست دان مجھے چبھتے ہیں جب اور جہاں نظر آتے ہیں ٹھونک دیتا ہوں انہیں اپنے ہتھوڑے سے ان کے حق میں یا خلاف دلائل کو تولے بغیر ترکھان کی دکان میں ترازو کا کیا کام

    مزید پڑھیے

    دیوار

    سورج کو سر پر اٹھائے اٹھائے آج میں ایک دیوار کے ساتھ ساتھ کئی میل چلا اپنے بچھڑے ہوئے دوستوں کو ڈھونڈھتا ہوا یہ بہت دیر میں کھلا کہ میں دیوار کے اس طرف ہوں اور وہ اس طرف میں پوچھنا چاہتا ہوں کسی سے کہ یہ کنٹینرز کی دیوار ہے یا نفرت کی

    مزید پڑھیے

    بسنتی

    تمام خواب بلیک اینڈ وائٹ ہوتے ہیں سوائے ان کے جن میں تم آتی ہو بسنتی

    مزید پڑھیے

    وارث

    نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا رعونت کا سلسلہ جاری ہے اب کوئی زمانہ کسی نبی کا زمانہ نہیں ہر دور ایک فرعون کا دور ہے جس کے قبضے میں قارون کا خزانہ ہے جس نے انبیا کی میراث پر قبضہ کر لیا ہے اسے پہچاننا مشکل نہیں اس کے پاس توہین رسالت کی تلوار ہے جو اس پر ایمان نہ لائیں وہ لاپتا ہو جاتے ...

    مزید پڑھیے

    پیادے

    شطرنج کی بساط پر بادشاہ قلعہ بند رہتا ہے جنگ وزیر لڑتا ہے بادشاہ کی ساری امیدیں وزیر سے وابستہ یوں ہی ہیں وزیر اپنے مہروں کو تحفظ دیتا ہے دوسرے کے مہروں کو شکار کرتا ہے کھیل آگے بڑھتا ہے قلعوں میں شگاف پڑ جاتا ہے وزیر اگلے محاذ پر لڑتے لڑتے کام آ جاتا ہے لیکن بازی ختم نہیں ...

    مزید پڑھیے

    شمع

    آج اس دل ربا کی سال گرہ ہے لیکن میں اس حسین شام کا انتظار نہیں کر سکا کل رات ہی جشن منانے اس کے در پر پہنچ گیا میرے ہاتھوں میں سرخ گلاب تھے اور بہار کی خوش بو آنکھوں میں پیار تھا اور بہت سے سوال ہونٹوں پر خوشیوں کے گیت تھے اور تھوڑی سی پیاس دل ربا کے سامنے اک شمع جل رہی تھی خوشی کے ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    روز رات کے پہلے پہر کورے کاغذ پر تمہارا نام لکھتا ہوں اور موسم بہار کا آغاز ہو جاتا ہے کاغذ پر تمہارے نام سے اک بیل پھوٹتی ہے اس کی کونپلیں نکلتی ہیں خوش رنگ شگوفے کھلتے ہیں بیل محبت کی دھن پر ناچنا شروع کر دیتی ہے ناچتے ناچتے پورے ورق کو گلستاں کر دیتی ہے میں تھوڑی سی خوش بو اپنے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2