شمع
آج اس دل ربا کی سال گرہ ہے
لیکن میں اس حسین شام کا انتظار نہیں کر سکا
کل رات ہی جشن منانے اس کے در پر پہنچ گیا
میرے ہاتھوں میں سرخ گلاب تھے
اور بہار کی خوش بو
آنکھوں میں پیار تھا
اور بہت سے سوال
ہونٹوں پر خوشیوں کے گیت تھے
اور تھوڑی سی پیاس
دل ربا کے سامنے اک شمع جل رہی تھی
خوشی کے اس موقع پر
ٹھیک بارہ بجے
اس نے وہی کیا جو سال گرہ منانے والے کرتے ہیں
قاتل اداؤں والی نے
بے نیازی سے پھونک مار کے
میری محبت کی شمع گل کر دی