اختر سے بھی آبرو میں بہتر ہے یہ اشک
اختر سے بھی آبرو میں بہتر ہے یہ اشک اللہ ہے مشتری وہ گوہر ہیں یہ اشک آنکھوں سے لگا کے ان کو کہتے ہیں ملک گوہر نہیں نور چشم کوثر ہیں یہ اشک
لکھنؤ کے ممتاز ترین کلاسیکی شاعروں میں ۔ عظیم مرثیہ نگار
One of the most prominent classical poets at Lucknow, who excelled in Mersia poetry. Contemporary of Mirza Ghalib.
اختر سے بھی آبرو میں بہتر ہے یہ اشک اللہ ہے مشتری وہ گوہر ہیں یہ اشک آنکھوں سے لگا کے ان کو کہتے ہیں ملک گوہر نہیں نور چشم کوثر ہیں یہ اشک
ٹھوکر بھی نہ ماریں گے اگر خود سر ہے زردار کو بھی فروتنی بہتر ہے ہے میوۂ نخل قد انساں تسلیم جھکتی ہے وہی شاخ جو بار آور ہے
اکبر نے جو گھر موت کا آباد کیا صغرا کو دم نزع بہت یاد کیا لاشے پہ کمر پکڑ کے کہتے تھے حسین تم نے علی اکبر ہمیں برباد کیا
دل نے غم بے حساب کیا کیا دیکھا آنکھوں سے جہاں میں خواب کیا کیا دیکھا طفلی و شباب و عیش و رنج و راحت اس عمر نے انقلاب کیا کیا دیکھا
جو چشم غم شہ میں سدا روتی ہے ہر لمحہ فزوں اس میں ضیا ہوتی ہے اشک غم شبیر کا رتبہ دیکھو یاں اشک کا قطرہ ہے وہاں موتی ہے
اب خواب سے چونک وقت بیداری ہے لے زاد سفر کوچ کی تیاری ہے مر مر کے پہنچتے ہیں مسافر واں تک یہ قبر کی منزل بھی غضب کی بھاری ہے
داماد رسول کی شہادت ہے آج معصوموں پہ فاطمہ کے آفت ہے آج جنت میں تڑپتے ہیں رسول الثقلین خاتون قیامت پہ قیامت ہے آج
اعلیٰ رتبے میں ہر بشر سے پایا افضل انہیں خضر راہ بر سے پایا یہ در جو نہ ملتا تو بھٹکتے پھرتے جنت کا پتا علی کے گھر سے پایا
انجام پہ اپنے آہ و زاری کر تو سختی بھی جو ہو تو بردباری کر تو پیدا کیا خاک سے خدا نے تجھ کو بہتر ہے یہی کہ خاک ساری کر تو
فرصت کوئی ساعت نہ زمانے سے ملی بیگانے سے راحت نہ یگانے سے ملی حقا کہ پلک نواز ہے ذات تری جنت انہیں اشکوں کے بہانے سے ملی