Meer Anees

میر انیس

لکھنؤ کے ممتاز ترین کلاسیکی شاعروں میں ۔ عظیم مرثیہ نگار

One of the most prominent classical poets at Lucknow, who excelled in Mersia poetry. Contemporary of Mirza Ghalib.

میر انیس کی غزل

    وجد ہو بلبل تصویر کو جس کی بو سے

    وجد ہو بلبل تصویر کو جس کی بو سے اوس سے گل رنگ کا دعویٰ کرے پھر کس رو سے شمع کے رونے پہ بس صاف ہنسی آتی ہے آتش دل کہیں کم ہوتی ہے چار آنسو سے ایک دن وہ تھا کہ تکیہ تھا کسی کا بازو اب سر اٹھتا ہی نہیں اپنے سر زانو سے نزع میں ہوں مری مشکل کرو آساں یاروں کھولو تعویذ شفا جلد مرے بازو ...

    مزید پڑھیے

    اشارے کیا نگۂ ناز دل ربا کے چلے

    اشارے کیا نگۂ ناز دل ربا کے چلے ستم کے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے گنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اٹھا کے چلے خدا کے آگے خجالت سے سر جھکا کے چلے طلب سے عار ہے اللہ سے فقیروں کو کہیں جو ہو گیا پھیرا صدا سنا کے چلے پکارے کہتی تھی حسرت سے نعش عاشق کی صنم کدھر کو ہمیں خاک میں ملا کے ...

    مزید پڑھیے

    شہید عشق ہوئے قیس نامور کی طرح

    شہید عشق ہوئے قیس نامور کی طرح جہاں میں عیب بھی ہم نے کیے ہنر کی طرح کچھ آج شام سے چہرہ ہے فق سحر کی طرح ڈھلا ہی جاتا ہوں فرقت میں دوپہر کی طرح سیاہ بختوں کو یوں باغ سے نکال اے چرخ کہ چار پھول تو دامن میں ہوں سپر کی طرح تمام خلق ہے خواہان آبرو اے رب چھپا مجھے صدف قبر میں گہر کی ...

    مزید پڑھیے

    ابتدا سے ہم ضعیف و ناتواں پیدا ہوئے

    ابتدا سے ہم ضعیف و ناتواں پیدا ہوئے اڑ گیا جب رنگ رخ سے استخواں پیدا ہوئے خاکساری نے دکھائیں رفعتوں پر رفعتیں اس زمیں سے واہ کیا کیا آسماں پیدا ہوئے علم خالق کا خزانہ ہے میان کاف و نون ایک کن کہنے سے یہ کون و مکاں پیدا ہوئے ضبط دیکھو سب کی سن لی اور کچھ اپنی کہی اس زباں دانی پر ...

    مزید پڑھیے

    خود نوید زندگی لائی قضا میرے لیے

    خود نوید زندگی لائی قضا میرے لیے شمع کشتہ ہوں فنا میں ہے بقا میرے لیے زندگی میں تو نہ اک دم خوش کیا ہنس بول کر آج کیوں روتے ہیں میرے آشنا میرے لیے کنج عزلت میں مثال آسیا ہوں گوشہ گیر رزق پہنچاتا ہے گھر بیٹھے خدا میرے لیے تو سراپا اجر اے زاہد میں سر تا پا گناہ باغ جنت تیری خاطر ...

    مزید پڑھیے

    مرا راز دل آشکارا نہیں

    مرا راز دل آشکارا نہیں وہ دریا ہوں جس کا کنارا نہیں وہ گل ہوں جدا سب سے ہے جس کا رنگ وہ بو ہوں کہ جو آشکارا نہیں وہ پانی ہوں شیریں نہیں جس میں شور وہ آتش ہوں جس میں شرارہ نہیں بہت زال دنیا نے دیں بازیاں میں وہ نوجواں ہوں جو ہارا نہیں جہنم سے ہم بے قراروں کو کیا جو آتش پہ ٹھہرے وہ ...

    مزید پڑھیے

    سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو

    سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو ہم آسمان سے لائے ہیں ان زمینوں کو پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو خیال صنعت صانع ہے پاک بینوں کو کمال فقر بھی شایاں ہے پاک بینوں کو یہ خاک تخت ہے ہم بوریا نشینوں کو لحد میں سوئے ہیں چھوڑا ہے شہ نشینوں کو قضا کہاں سے کہاں لے گئی مکینوں کو یہ ...

    مزید پڑھیے

    نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں

    نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں وہ جاگتے ہیں جو دنیا کو خواب سمجھے ہیں کبھی برا نہیں جانا کسی کو اپنے سوا ہر ایک ذرے کو ہم آفتاب سمجھے ہیں عجب نہیں ہے جو شیشوں میں بھر کے لے جائیں ان آنسوؤں کو فرشتے گلاب سمجھے ہیں زمانہ ایک طرح پر کبھی نہیں رہتا اسی کو اہل جہاں انقلاب سمجھے ...

    مزید پڑھیے

    کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے

    کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے کسی کی آس بغیر از خدا نہیں رکھتے کسی کو کیا ہو دلوں کی شکستگی کی خبر کہ ٹوٹنے میں یہ شیشے صدا نہیں رکھتے فقیر دوست جو ہو ہم کو سرفراز کرے کچھ اور فرش بجز بوریا نہیں رکھتے مسافرو شب اول بہت ہے تیرہ و تار چراغ قبر ابھی سے جلا نہیں رکھتے وہ لوگ کون ...

    مزید پڑھیے