شبیر کا غم یہ جس کے دل پر ہوگا
شبیر کا غم یہ جس کے دل پر ہوگا آنسو جو گرے گا شکل گوہر ہوگا پوچھے گا خدا جب ایسے در کی قیمت تب حشر میں جوہری پیمبر ہوگا
لکھنؤ کے ممتاز ترین کلاسیکی شاعروں میں ۔ عظیم مرثیہ نگار
One of the most prominent classical poets at Lucknow, who excelled in Mersia poetry. Contemporary of Mirza Ghalib.
شبیر کا غم یہ جس کے دل پر ہوگا آنسو جو گرے گا شکل گوہر ہوگا پوچھے گا خدا جب ایسے در کی قیمت تب حشر میں جوہری پیمبر ہوگا
بے گور و کفن باپ کا لاشہ دیکھا پردیس میں مادر کا رنڈاپا دیکھا زنداں میں جفاے خار و طوق و زنجیر عابد نے پدر کے بعد کیا کیا دیکھا
عریاں سر خاتون زمن ہے اب تک ناموس پہ ایذا و محن ہے اب تک چہلم کے ہیں دن خاک اڑاؤ یارو شبیر کی لاش بے کفن ہے اب تک
اللہ اللہ عز و جاہ ذاکر دربار حسینی میں ہے راہ ذاکر پنجہ جو علم کا سر منبر ہے انیس ہے دست علم دار پناہ ذاکر
گلشن میں صبا کو جستجو تیری ہے بلبل کی زبان پہ گفتگو تیری ہے ہر رنگ میں جلوہ ہے تیری قدرت کا جس پھول کو سونگھتا ہوں بو تیری ہے
اب گرم خبر موت کے آنے کی ہے غافل تجھے فکر آب و دانے کی ہے ہستی کے لیے ضرور اک دن ہے فنا آنا تیرا دلیل جانے کی ہے
افزوں ہیں بیاں سے معجزات حیدر حلال مہمات ہے ذات حیدر توریت انجیل اور زبور و قرآن ہیں ایک رباعی صفات حیدر
انداز سخن تم جو ہمارے سمجھو جو لطف کلام ہیں وہ سارے سمجھو آواز گرفتہ گو ہے اس ذاکر کی پہروں رؤو اگر اشارے سمجھو
جو مرتبہ احمد کے وصی کا دیکھا ہم نے نہیں رتبہ یہ کسی کا دیکھا کہتے ہیں نبی جب ہوئی معراج مجھے پہنچا جو وہاں ہاتھ علی کا دیکھا
بست و یکم ماہ محرم ہے آج جس آنکھ کو دیکھیے وہ پر نم ہے آج عاشور سے بے دفن ہے لاشہ جس کا اس بے کفن و گور کا ماتم ہے آج