مے خانۂ کوثر کا شرابی ہوں میں
مے خانۂ کوثر کا شرابی ہوں میں کیا قبر کا خوف بو ترابی ہوں میں کہتی ہے یہ چشم خوش رکھو نہ مجھے اے اہل نظر مردم آبی ہوں میں
لکھنؤ کے ممتاز ترین کلاسیکی شاعروں میں ۔ عظیم مرثیہ نگار
One of the most prominent classical poets at Lucknow, who excelled in Mersia poetry. Contemporary of Mirza Ghalib.
مے خانۂ کوثر کا شرابی ہوں میں کیا قبر کا خوف بو ترابی ہوں میں کہتی ہے یہ چشم خوش رکھو نہ مجھے اے اہل نظر مردم آبی ہوں میں
اتنا نہ غرور کر کہ مرنا ہے تجھے آرام ابھی قبر میں کرنا ہے تجھے رکھ خاک پہ سوچ کر ذرا پاؤں انیسؔ اک روز صراط سے گزرنا ہے تجھے
احباب سے امید ہے بے جا مجھ کو امید عطائے حق ہے زیبا مجھ کو کیا ان سے توقع کہ میان مرقد چھوڑ آئیں گے اک روز یہ تنہا مجھ کو
اے مومنو فاطمہؓ کا پیارا شبیر کل جائے گا بھوکا پیاسا مارا شبیر ہو جائیں گے سب تعزیہ خانے سنسان آج اور ہے مہمان تمہارا شبیر
اب ہند کی ظلمت سے نکلتا ہوں میں توفیق رفیق ہو تو چلتا ہوں میں تقدیر نے بیڑیاں تو کاٹی ہیں انیسؔ کیوں رک گئے پاؤں ہاتھ ملتا ہوں میں
برہم ہے جہاں عجب تلاطم ہے آج سب روتے ہیں دنیا میں خوشی گم ہے آج چالیسویں تک گڑا نہ لاشہ جس کا اس بیکس و مظلوم کا چہلم ہے آج
بادل آ کے رو گئے ہائے غضب آنسو نایاب ہو گئے ہائے غضب جی بھر کے حسین کو نہ روئے اس سال آنکھوں کے نصیب سو گئے ہائے غضب
افضل کوئی مرتضیٰ سے ہمت میں نہیں اس طرح کا بندہ تو حقیقت میں نہیں طوبیٰ تسنیم و خلد و سیب و رمان وہ کیا ہے جو حیدر کی ولایت میں نہیں
گلشن میں پھروں کہ سیر صحرا دیکھوں یا معدن و کوہ و دشت و دریا دیکھوں ہر جا تری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے حیران ہوں دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں
کھینچے مجھے موت زندگانی کی طرف غم خود لے جائے شادمانی کی طرف تیرا جو کرم ہو تو مثال مہ نو پیری سے پہنچ جاؤں جوانی کی طرف