ہر قلب پہ بجلیاں گراتی آئی
ہر قلب پہ بجلیاں گراتی آئی ایک آگ سی ہر طرف لگاتی آئی کھلتے جاتے ہیں زخم ہائے کہنہ پھر صبح بہار مسکراتی آئی
اپنی رباعیات اور گوتم بدھ پر طویل نظم کے لیے مشہور
Famous for his Rubai's and long poem on Gautam Budha.
ہر قلب پہ بجلیاں گراتی آئی ایک آگ سی ہر طرف لگاتی آئی کھلتے جاتے ہیں زخم ہائے کہنہ پھر صبح بہار مسکراتی آئی
ملنا کس کام کا اگر دل نہ ملے چلنا بے کار ہے جو منزل نہ ملے وسط دریا میں غرق ہونا بہتر اس کہ نظر میں آ کے ساحل نہ ملے
افلاس اچھا نہ فکر دولت اچھی جو دل کو پسند ہو وہ حالت اچھی جس سے اصلاح نفس نا ممکن ہو اس عیش سے ہر طرح مصیبت اچھی
انداز جفا بدل کے دیکھو تو سہی پاؤں سے یہ پھول مل کے دیکھو تو سہی رنگ گلکاری جبین سجدہ اک دن گھر سے نکل کے دیکھو تو سہی
سرمایۂ اعتبار دے دیں تم کو رنگ حسن بہار دے دیں تم کو اس سے بہتر کہ نت نئے شکوے ہوں ہر چیز کا اختیار دے دیں تم کو
نالہ تیرا ناز سے بالا ہے یہ راز افشائے راز سے بالا ہے انساں معذور فکر انساں معذور نغمۂ آواز ساز سے بالا ہے
تم تیشۂ باغباں سے کیوں مضطر ہو شاید یہ قلم ہی نخل بار آور ہو مقراض اجل ہے قاطع شاخ نبات ممکن ہے اسی میں راز جاں مضمر ہو
اب دشمن جاں ہی کلفت غم ساقی فریاد لبوں پر آ گیا دم ساقی کیا دور نہ ہوگی یہ مری تشنہ لبی میرے مولا میرے مکرم ساقی
پھولوں سے تمیز خار پیدا کر لیں یک رنگیٔ اعتبار پیدا کر لیں ٹھہرو چلتے ہیں سیر گلشن کو رواں پہلے دل میں بہار پیدا کر لیں