Inam Sharar Ayyubi

انعام شرر ایوبی

انعام شرر ایوبی کی غزل

    کون ہوگا مری جرأت کا بدل میرے بعد

    کون ہوگا مری جرأت کا بدل میرے بعد ختم ہو جائے گا ہر رد عمل میرے بعد کون پھر میری طرح تیرا اڑائے گا مذاق زندگی پھر کسے بخشے گی اجل میرے بعد میرؔ تو میرؔ تھا اور سچ ہی کہا تھا اس نے سر بہ گرداں ہی رہے گی یہ غزل میرے بعد کوئی قدموں سے نہیں روندے گا دولت ان کی کس سے الجھیں گے یہ ارباب ...

    مزید پڑھیے

    کچھ شوخ حسیناؤں سی رنگین کتابیں

    کچھ شوخ حسیناؤں سی رنگین کتابیں دن رات مجھے دیتی ہیں تسکین کتابیں انسان ہی تذلیل کیا کرتا ہے ان کی کرتی نہیں انسان کی توہین کتابیں سیکھا ہے فقط ان سے ہی جینے کا سلیقہ تہذیب و تمدن کی ہیں آئین کتابیں جب غم سے میں گھبرا کے تڑپ جاتا ہوں اکثر کرتی ہیں مجھے صبر کی تلقین کتابیں اس ...

    مزید پڑھیے

    کس قدر دشوار تھا یہ مسئلہ حل کر دیا

    کس قدر دشوار تھا یہ مسئلہ حل کر دیا ایک سرگوشی میں اس نے مجھ کو پاگل کر دیا جانے یہ تاثیر ہاتھوں میں کہاں سے آ گئی اتفاقا اس کو چھو کر میں نے صندل کر دیا جن کی جنبش پر کبھی تھا وقت کا دار و مدار وقت نے دھندلا انہیں آنکھوں کا کاجل کر دیا قاعدے قانون سارے رکھ دیے بالائے طاق ہم نے ...

    مزید پڑھیے

    عشق کی بات وفاؤں کی کہانی رکھ دے

    عشق کی بات وفاؤں کی کہانی رکھ دے ہو گئی آج ہر اک رسم پرانی رکھ دے منتظر ہے مری پیشانی کسی سورج کی اپنے ہونٹوں سے جو تو ایک نشانی رکھ دے گفتگو میری مرا دوست سمجھتا ہی نہیں اس کے دل میں مرے لفظوں کے معانی رکھ دے وہ بھی سیراب ہوں صدیوں سے جو پیاسے ہی رہے خشک صحراؤں میں دریاؤں کا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے پندار کو کھویا نہیں جاتا مجھ سے

    اپنے پندار کو کھویا نہیں جاتا مجھ سے میں جو چاہوں بھی تو رویا نہیں جاتا مجھ سے مبتلا ہو مرا ہمسایہ کسی غم میں اگر جاگتا رہتا ہوں سویا نہیں جاتا مجھ سے حادثوں میں بھی رہی ہے مرے ہونٹوں پہ ہنسی غم کو خوشیوں میں سمویا نہیں جاتا مجھ سے قصۂ ظلم میں کیسے لکھوں کب تک لکھوں اب قلم خوں ...

    مزید پڑھیے

    ہے یقیناً یہ کوئی راز مشیت ورنہ

    ہے یقیناً یہ کوئی راز مشیت ورنہ لوگ کرتے ہی نہیں شہر سے ہجرت ورنہ اس کی نفرت کا دیا ہم نے محبت سے جواب کم نہ تھی خون میں کچھ اپنے بھی حدت ورنہ تجھ کو دیکھا تو یقیں ہو گیا اے مست خرام دیکھتا آنکھ سے کون اپنی قیامت ورنہ خون میں سب کے ہے قابیل کے خوں کا عنصر نسل آدم کے لیے وجہ ہلاکت ...

    مزید پڑھیے

    خرد سے ہوش سے بیگانہ کر دیا ہے مجھے

    خرد سے ہوش سے بیگانہ کر دیا ہے مجھے ترے جمال نے دیوانہ کر دیا ہے مجھے مرا نصیب مری جستجو کرم اس کا طلب سے پہلے عطا دانہ کر دیا ہے مجھے میں فطرتاً بہت آزاد تھا مگر اس نے اسیر بام و در خانہ کر دیا ہے مجھے ہمیشہ خود رہا قائم حقیقتیں بن کر میں بند ٹھہرا سو افسانہ کر دیا ہے مجھے شررؔ ...

    مزید پڑھیے

    وہ حسن وہ خوشبو مرے کردار میں آ جائے

    وہ حسن وہ خوشبو مرے کردار میں آ جائے ہر شخص مجھے دیکھنے بازار میں آ جائے چاہوں بھی تو گھر کو میں کبھی چھوڑ نہ پاؤں اے کاش وہ رنگت در و دیوار میں آ جائے کتنے ہی مظالم ہوں قلم چلتا رہے بس جتنا بھی ہو پانی اسی تلوار میں آ جائے ہر شام شفق دیکھ کے دل کہتا ہے میرا شاید یہی سرخی ہر ...

    مزید پڑھیے

    جو اب سے پہلے تھا لہجہ نہیں وہ آج مرا

    جو اب سے پہلے تھا لہجہ نہیں وہ آج مرا نہ جانے روٹھ گیا مجھ سے کیوں مزاج مرا بنا دیا ہے تجھے محنتوں سے رشک ارم زمین یہ ہے ترے واسطے خراج مرا جہاں معاف کیا قاتلوں کو منصف نے وہیں پہ درج کیا میں نے احتجاج مرا ہر اک وجود میں میں ہوں حرارتیں بن کر ہے زندگی کے عناصر میں امتزاج ...

    مزید پڑھیے

    مری رگوں میں جو اک اضطراب ہے کیا ہے

    مری رگوں میں جو اک اضطراب ہے کیا ہے لہو ہے روشنی ہے انقلاب ہے کیا ہے یہی صلہ ہے تری محنتوں کا محنت کش تری جبیں پہ جو یہ آفتاب ہے کیا ہے خرد الجھتی رہی اور کھلا نہ راز حیات عذاب ہے کہ یہ نعمت ہے خواب ہے کیا ہے خلوص لفظوں میں کیوں ہے دلوں میں کیوں ہے فریب کسی کے پاس کچھ اس کا جواب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2