عشق کی بات وفاؤں کی کہانی رکھ دے
عشق کی بات وفاؤں کی کہانی رکھ دے
ہو گئی آج ہر اک رسم پرانی رکھ دے
منتظر ہے مری پیشانی کسی سورج کی
اپنے ہونٹوں سے جو تو ایک نشانی رکھ دے
گفتگو میری مرا دوست سمجھتا ہی نہیں
اس کے دل میں مرے لفظوں کے معانی رکھ دے
وہ بھی سیراب ہوں صدیوں سے جو پیاسے ہی رہے
خشک صحراؤں میں دریاؤں کا پانی رکھ دے
میں شررؔ بولوں تو ایوان سیاست جل جائے
میرے الفاظ میں وہ شعلہ بیانی رکھ دے